(+92) 0317 1118263

لباس کے آداب و احکام

حضورﷺ سے کتنے رنگ کا عمامہ پہننا ثابت ہے؟

فتوی نمبر :
21163
| تاریخ :

حضورﷺ سے کتنے رنگ کا عمامہ پہننا ثابت ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان اس مسئلہ کے بارے میں کہ نبی کریمﷺ سے کتنے رنگ کی پگڑی باندھنا ثابت ہے؟ کیا کالے رنگ کے علاوہ سفید اور سبزرنگ کی پگڑی بھی ثابت ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ زیادہ ، یعنی اکثر اوقات آپﷺ نے کس رنگ کی پگڑی باندھی ہے؟ اُمید ہے کہ دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائینگے۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

مطلقاً تو حضورﷺ سے بعض مخصوص حالات وواقعات میں چار رنگوں ( پیلے، سرخ دھاری دار اور سفید) کی پگڑی ، یعنی عمامہ باندھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ ٭

جبکہ دورانِ سفر عموماً کالے رنگ کا عمامہ اور دورانِ اقامت عمومی زندگی میں سفید عمامہ زیب تن فرمانے کا معمول تھا، مگر چونکہ سفید لباس آپﷺ کو محبوب تھا،ا پنی امت کے مردوں کےلیے سفید رنگ پسند فرمایا اور کفن کےلیے بھی اسی رنگ کی ترغیب دی، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ علیہ السلام کی اتباع میں اکثر یہی لباس پہنا کرتے تھے، اور پھر پگڑی ’’عمامہ‘‘ بھی لباس ہی کا ایک حصہ ہے، اس لیے ان وجوہات کی بناء پر سفید عمامہ سے متعلق رِوایات احادیث میں مستقلاً کوئی ذکر نہیں، بلکہ لباس کے ذکر میں اس کا بھی ضمناً ثبوت ہو جاتا ہے، نیز صحابہ و تابعین سے سفید رنگ کی پگڑی پہننا منقول ہے۔ ٭

اور سبز رنگ چونکہ نہ تو آپ علیہ السلام کا محبوب ہے، نہ زیب تن فرمایا اور نہ کسی کےلیے ترغیب دینا ثابت ہے، اور ذخیرہ احادیث میں اس کاکہیں تذکرہ بھی نہیں ملتا، اس لیے پورے ذخیرہ احادیث میں ایک مرتبہ بھی سبز رنگ کا عمامہ کا ذکر نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے کہ سبز عمامہ کو سنت نبوی سے کوئی مناسبت اور تعلق نہیں، بلکہ ایک مخصوص جماعت نے اسے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ دعا ہے کہ رب کریم اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
البتہ مسنون قرار دئیے بغیر محض جواز کے درجہ میں اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن اہل بدعت کا شعار ہونے کی بناء پر اس حتراز لازم ہے۔ ٭


مأخَذُ الفَتوی

٭ فانہﷺ عمم من الوان مختلفۃ ولکن ثبت عندہﷺ فی العمامۃ أربعۃ الوان فھی الأسود والاصفر، والأبیض، والأحمر۔(المأخوذ من شاہیب لاعمامۃ فی تحقیق العمامۃ)
و فی سنن أبي داود: عن جعفر بن عمرو بن حريث، عن أبيه، قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر، وعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفها بين كتفيه»(4/ 54)
و فیہ أیضاً: عن جابر، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عام الفتح مكة وعليه عمامة سوداء»(4/ 54)
و فیہ أیضاً: أخبرني أبي عبد الله بن سعد، عن أبيه سعد، قال: رأيت رجلا ببخارى على بغلة بيضاء عليه عمامة خز سوداء، فقال: «كسانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم»(4/ 54)

٭ و من التحقیق انہﷺ کان یکثر لبس العمامۃ السوداء فی أسفارہ وعزواتہ فکانت الصحابۃ رضی اللہ عنہم إذا شاھدواھا یرونھا عنھا وأما فی زمن الإقامۃ فکان اکثر لبسہ ﷺ العمامۃ البیضاء، ولکثرۃ لبسھا وإشاعۃ ھذہ السنۃ السنیۃ فیھم لم یعثوا الصحابۃ بالروایۃ عنھا۔
والدلیل علی أن ﷺ فی غالب احوالہ لبس البیاض الحدیث ما أخرجہ ابی حبان و أبوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ عن ابنِ عبَّاسٍ، قال: قال رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلم-: "البَسُوا مِن ثيابكُمُ البياضَ، فإنَّها مِنْ خير ثيابِكُم، وكَفِّنُوا فيها مَوْتَاكُم، ومنھا اخرجہ النسائی و الحاکم وأحمد و البیھقی عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البسوا من ثيابكم البياض، فإنها أطهر وأطيب، وكفنوا فيها موتاكم» عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "الْبَسُوا ثِيَابَ الْبَيَاضِ، فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ"۔
(المأخوذ من شاہیب لاعمامۃ فی تحقیق العمامۃ، ص:۵۵)

٭ ففی الحاوي للفتاوي: هَلْ يَلْبَسُونَ الْعَلَامَةَ الْخَضْرَاءَ؟ وَالْجَوَابُ أَنَّ هَذِهِ الْعَلَامَةَ لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ، وَلَا فِي السُّنَّةِ، وَلَا كَانَتْ فِي الزَّمَنِ الْقَدِيمِ، وَإِنَّمَا حَدَثَتْ فِي سَنَةِ ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ وَسَبْعِمِائَةٍ بِأَمْرِ الملك الأشرف شعبان بن حسين(2/ 40)
و فی الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي: وَأما العمامۃ الخضراء فَلَا أصل لَهَا وَإِنَّمَا حدثت سنة ثَلَاث وَسبعين وَسَبْعمائة بِأَمْر الْملك شعْبَان بن حسن۔(ص: 121)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
ناصر سینا محمد عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 21163کی تصدیق کریں
متعلقه فتاوی
( view all )