السلام علیکم !
میں پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی (PSO) کے محکمۂ خزانہ میں کام کرتا ہوں، جہا ں بینک وغیرہ سے ڈیلنگ ہوتی ہے اور مارک اپ / سود کا حساب کتاب اور ادائیگی کی جاتی ہے ،کیا یہ ملازمت کرنا جائز ہےیا نہیں ؟ میری تنخواہ حلال ہے یا بینک کی تنخواہ کی طرح حرام شمار ہوگی؟ کیا اس کمپنی کے دوسرے محکمے جیسے تجارت وغیرہ میں کام کرنا درست ہے ؟
2: اگر نماز کے وقت بریلوی یا ہری پگڑی والے حضرات کی مسجد قریب ہو تو اکیلے اپنی نماز پڑھ لینا بہتر ہے، یا ان کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا بہتر ہے ؟ اگر ان کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی جائے تو حدیث میں جماعت کی نماز کی جو فضیلت آئی ہے وہ حاصل ہو جائے گی ؟
۳: اکثر دیکھا ہے کہ لوگ جماعت کی نماز میں شامل ہوتے ہیں، جبکہ امام رکوع سے اٹھ چکا ہوتا ہے، تو جلدی سے تکبیر ِاولی کے بعد اپنا انفرادی رکوع کر لیتے ہیں، اور پھر امام کو پہلے سجدے میں پالیتے ہیں پھر اس رکعت کو اخیر میں دوبارہ نہیں پڑھتے ، کیا اس طرح رکعت ہو جاتی ہے ؟
۱:سائل مذکور آئل کمپنی کے جس شعبہ میں ملازمت کر رہا ہے ،اگر وہاں براہِ راست سودی حساب و کتاب اور سود کے دیگر معاملات بھی سر انجام دیے جاتے ہوں ،تو ایسی صورت میں یہ ملازمت ناجائز ہے، اور اسی تناسب سے اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہے، اس سے احتراز لازم ہے، جبکہ مذکور کمپنی کے دیگر تجارت وغیرہ کے شعبوں میں ملازمت کرنا سائل کیلئے بلا شبہ جائز اور درست ہے ۔
۲: بریلوی عام طور پر بدعات و رسومات کے مرتکب ہوتے ہیں، لہذا مذکور امام اگر مشرکانہ عقائد کا حامل نہ ہو، بلکہ محض ارتکابِ بدعات میں متشدد ہو تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اس لئے کسی دوسرے متبعِ شریعت شخص کے ہوتے ہوئے اگرچہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے جانے میں کچھ مشقت برداشت کرنی پڑے ،ایسے شخص کی اقتداء سے احتراز لازم ہے، تا ہم اس کی اقتداء میں جو نماز پڑھی جائے ،وہ درست ہو جائے گی ،اعادے کی ضرورت نہیں۔
۳: جس شخص نے امام کو رکوع میں نہیں پایا ہو، اس کو رکعت نہیں ملی ،اگر چہ وہ انفرادی طور پر اپنا رکوع بھی کرے ،ایسے شخص کو چاہیئے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز پوری کرے۔
كما في مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: عن جابر قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا» ) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، (إلی قوله) (ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه (إلی قوله) قال الخطابي: سوى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم كما كانا شريكين في الفعل، (إلی قوله) (وكاتبه وشاهديه): قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل اھ(5/ 1916)۔
وفي الدر المختار: (ویكره امامة عبد ومبتدع ) أى صاحب بدعته لا يكفر بها ... وان كفر بها فلا يصح الاقتداء به اصلا) (الی قوله) وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة اھ (1/ 562)۔
وفى حاشية ابن عابدين؛ (قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع اھ (1/ 562) ۔
وفي مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر : (ومن أدرك الإمام) حال كونه (راكعا فكبر ووقف حتى رفع) الإمام (رأسه لم يدرك) تلك (الركعة) وكذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام منه قبل ركوع المقتدي لا يصير مدركا لفوت المشاركة فيه المستلزم لفوت الركعة اھ(1/ 143)۔