۱۔ السلام علیکم! مفتی صاحب! آپ کی معلومات کے مطابق کیا تبلیغی جماعت والے جہاد کےقائل نہیں ہیں، نیز جو لوگ عوام میں یہ بات باور کرواتے ہیں کے جماعت والے جہاد کے قائل نہیں ، شریعت کی رو سے ان کی کیا حیثیت ہے؟
۲۔ کیا موجودہ حالات میں جہاد ساری امت پر فرض ہو چکا ہے، اگر ہو چکا ہے، ہم پاکستان میں رہتے ہوئے کس طرح جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں اور اگر فرض نہیں ہوا تو کب فرض ہو گا ؟
۳۔ جو لوگ تبلیغی جماعت سے دوسروں کو بددل کرتے ہیں شریعت میں ان کی باتوں کی کیا حیثیت ہے ؟ مثال کے طور پر لوگوں کو جماعت میں جانے سے یہ کہہ کر روکنا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی چلہ یا چار ماہ لگائے جاتے تھے ؟ یا کیا بنی کریم ﷺ کے دور میں بھی گشت ہوتا تھا ؟
۱۔ مسلمان کوئی بھی ہو چاہے تبلیغی جماعت سے ہو یا کسی بھی دوسری جماعت کا، وہ جہاد کا منکر نہیں ہو سکتا۔
۲۔ بحالتِ موجوده فلسطین ، بوسنیا، عراق اور کشمیر میں کافروں اور ہندؤں نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، وہاں کی حکومت مسلمانوں کو مذہبی آزادی نہیں دے رہی، بلکہ ان کے مذہبی اور دینی شعار کو مٹانے پر تلی ہے، ۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر مذکورہ مقامات کشمیر وغیرہ کے مسلمان اس جہاد کیلئے کافی نہ ہوں تو ان سے قریب رہنے والوں پر بھی فرض ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس ترتیب سے پوری دنیا کے سارے مسلمانوں پر فرض ہو سکتا ہے، لیکن جہاد کے فرض عین ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہاں کے سارے مسلمان اسلحہ لیکر میدان جنگ میں نکل جائیں اور دشمن سے بھڑ جائیں، بلکہ حکمت عملی کا جو بھی تقاضا ہو اس پر عمل کیا جائے، اگر حکمت عملی کا تقاضا یہ ہو کہ بعض مسلمان اسلحہ لیکر میدان میں نکل جائیں اور بعض مسلمان دوسرے ذرائع سے ان کی مدد کریں تو اس پر عمل کیا جانے اور دیگر ممالک کے مسلمانوں پر موجودہ جہاد کے فرض عین نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں، بلکہ ’’المسلمون كلهم كجسد واحد‘‘کے تحت اُن پر فرض بنتا ہے کہ حکمت عملی کے پیش نظر اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں اور جانی و مالی تعاون کریں اور یہاں کے مسلمان حکام پر دباؤ ڈالیں کہ یہ ہر ممکن کوشش کر کے غیر مسلم حکام پر زور ڈالیں تاکہ وہ لوگ ان مسلمانوں سے اپنا ظلم وستم کا پنجہ اٹھائیں اور ان کے جائز مطالبات پورے کر کے انہیں مذہبی آزادی دیدیں اور اسی طرح ان پر یہ بھی لازم ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی رہائی کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کریں۔
۳۔ اس اگرچہ آپ علیہ السلام کے زمانہ میں چلّہ، چارہ ماہ نہیں لگائے جاتے تھے، مگر تبلیغ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوت و تبلیغ کے استحکام اور احیاء کے لئے محض انتظامی طور پر ان اوقات کی تعیین کی گئی ہے اور قرآن وحدیث میں دعوت و تبلیغ امر بالمعروف و نہی عن المنكر کی جو بار بار تاکید آئی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں، چلہ ، چار ماہ، گشت وغیرہ محض لوگوں کی سہولت و آسانی کیلئے مقرر کئے گئے ہیں، ورنہ یہ نہ تو اصلاً مقصود ہیں اور نہ ہی صرف ان اوقات کو ثواب کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، بلکہ اصل مقصود اشاعتِ دین، دعوت دین، اپنی اصلاح اور پوری امت کی اصلاح کرنا اور اسی کی مشق کرنا ہے، اس لئے مذکور باتیں کرنے والے ان تحدیدات کے اصلی مقاصد سے لاعلمی کی بناء پر اس کے مرتکب ہو رہے ہیں، انہیں اپنے طرز عمل سے احتراز چاہیے ۔ واللہ تعالٰی اعلم بالصواب!
آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافاً وَّ ثِقَالاً ‘‘کو مروّ جہ تبلیغ میں نکلنے کی ترغیب کے لۓ پڑھنا
یونیکوڈ دعوت و تبلیغ 0کیا تبلیغ والوں کا سہ روزہ، چلہ، چارماہ اور سات ماہ وغیرہ اوقات مقرر کرنا بدعت ہے؟
یونیکوڈ دعوت و تبلیغ 0