میرے شوہر نے مجھے 2013 اور پھر 2014 میں ای میل کے ذریعے طلاق بھیجی، جو کینیڈا میں 2012 سے رہ رہے ہیں ، ہماری پانچ سال کی ایک بیٹی ہے، میں نے اس سے کئی مرتبہ حق مہر اور زیورات مانگے جو اس نے پاکستان سے جانے سے پہلےبیچ دیے تھے ، لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ جوخرچے میں نے آپ پر اور آپ کی بیٹی پر کیے ہیں، وہی آپ کے حق مہر اور زیورات کا بدلہ ہے، میں آپ کو کوئی حق مہر نہیں دونگا، 2013 سے لیکر 2016 تک کئی مرتبہ اس نے مجھے فون پر اور میسج کے ذریعے طلاق کا لفظ کہا، مہربانی فرما کر میری اس بارے میں رہنمائی فرمائیں اور میری بیٹی کے نان و نفقہ کے بارے میں بھی۔
سائلہ کے شوہر نے اگر وقفے وقفے سے ای میل یا میسج یا فون پر تین طلاقیں دیدی ہوں تو اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہو کرحرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا، اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہو سکتا، جبکہ سائلہ عدت کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ شادی کرنے میں بھی آزاد ہے، سائلہ کے شوہر نے حق مہر ادانہ کیا ہو تواسکا ادا کرنا اور جو زیورات شوہر نے فروخت کیے ہیں، اس کی قیمت سائلہ کو دینا بھی لازم ہے، اسی طرح دوران عدت سائلہ کا نان نفقہ بھی سائلہ کے شوہر پر لازم ہے، البتہ 2013 سے اب تک سائلہ کو نفقہ نہ دیا ہو اور دوران ِعدت کا نفقہ بھی نہ بھیجا ہو اور عدت کا زمانہ گذر چکا ہو تو وہ شوہر پر قرض نہیں رہا، سائلہ اب اس کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی جبکہ بچی کا نفقہ اب بھی اس کے والد کے ذمہ لازم ہے، اس لئے وہ اس سے وصول کیا جاسکتا ہے، نہ ملنے پر قانونی طریقہ کار بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
قال الله تعالى : فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ(البقرہ :230)-
وفی صحیح البخاری: وقال الليث: حدثني نافع، قال: كان ابن عمر، إذا سئل عمن طلق ثلاثا، قال: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك»(/743)-
وفی ردالمحتار: (قوله ثلاثة متفرقة) وكذا بكلمة واحدة بالأولى،(الی قوله) وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال}(3/232)-
وفی الھندیة: إذا خاصمت المرأة زوجها في نفقة ما مضى من الزمان قبل أن يفرض القاضي لها النفقة وقبل أن يتراضيا عن شيء فإن القاضي لا يقضي لها نفقة ما مضى عندنا كذا في المحيط استدانت على الزوج قبل الفرض والتراضي فانفقت لا ترجع بذلك على زوجها بل تكون متطوعة بالإنفاق سواء كان الزوج غائبا، أو حاضرا اھ (1/551)-
وفی ردالمحتار: (قوله: ولو جبرا) أي إن لم يأخذه بعد الاستغناء أجبر عليه كما في الملتقى.وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ.(3/566)-
وفی الدرالمختار: (وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج اھ (3/102)-
شوہر کا گھر بلا عذرِ شرعی چھوڑ کر میکے میں رہنے کی صورت میں نان و نفقے کا مسئلہ
یونیکوڈ نان و نفقہ 0