میں ایک سپر مارکیٹ کاروبار کا مالک ہوں، مجھے اپنے کاروبار کے آپریشنز کو جاری رکھنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں کھلے پیسوں (نوٹوں اور سکوں) کی ضرورت ہوتی ہے ، میری یہ ضرورت بینک پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے، جس کی وجہ سے مجھے کھلے مارکیٹ میں موجود بروکرز سے خریدنا پڑتا ہے، اور اضافی رقم دینی پڑتی ہے، مثلاً ایک لاکھ کے کھلے پر پانچ ہزار روپے کی اضافی قیمت یعنی 105000 / ایک لاکھ پانچ ہزار دے کر 100000 / ایک لاکھ کا کھلا خریدنا پڑتا ہے، کیا اس طرح سے کھلا خرید نا جائز ہے ؟ اگر یہ جائز نہیں تو پھر کھلے خریدنے کی کیا صورت اختیار کی جائے ؟ یاد رہے کہ کھلے کے بغیر ہمارے آپریشنز نہیں چل سکتے ،تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل کا بروکرز سے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے کے عوض ایک لاکھ روپے خرید نا تو چونکہ صریح سودی معاملہ ہے، جو کہ شرعاً جائز نہیں ، جس سے احتراز لازم ہے ۔البتہ اس کی جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سائل پاکستانی روپے کے بجائے کسی اور ملک کی کرنسی کے ذریعے کھلے پیسے خرید لیا کرے ،اور ایسی صورت میں یہ خریداری اگر چہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر ہو تب بھی شرعاً ایسا کرنا جائز ہو گا۔
كما في فقه البيوع: النقود الورقيه لا يجوز مبادلتها بالتفاضل أو النسيئة في جنس واحد، فلا يجوز بيع ربية واحدة بربيتين، أو بيع ربية بربية مؤجلة، فانه ربا أما إذا اختلف جنسهما مثل ان تباع الربيات الباكستانية با لريالات السعودية، فيجوز فيها التفاضل الخ (2/1175،1176) ۔
وفي الفتاوى الهندية: الدراهم والدنانير لا تتعينان في عقود المعاوضات عندنا ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا (3/ 218)۔
ایک جنس کی کرنسی کا باہم تبادلہ کرنے کے وقت کمی بیشی کرنا/اور قسطوں پر خرید وفروخت کی شرائط
یونیکوڈ کرنسی 0