کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ کورٹ کے ذریعہ خلع حاصل کرنا جبکہ رخصتی نہیں ہوئی، میری بہن کا نکاح ہوا ایک ایسے لڑکے سے جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ دیگر عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے ، مزید یہ وہ تیز مزاج کا ہے اور گالم گلوچ میں بھی ملوث رہتا ہے ، میری کزن اس رشتہ سے اس لڑکے کے ساتھ مطمئن نہیں ہے وہ چاہتی ہے کہ کورٹ کے ذریعہ خلع حاصل کرے ، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ رشتہ برقرار رہے مگر بد قسمتی سے یہ بر قرار نہیں رہا، اس بارے میں شریعت کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں ، جیسا کہ یہ بہت حساس مسئلہ ہے اگر ہم خلع کا کیس دائر کریں تو کیا کورٹ میں لڑکے کو حاضر ہو نا ضروری ہے جبکہ وہ حاضر نہیں ہو رہا۔
سوال میں مذکور تفصیل اگر واقعہ درست اور مبنی بر حقیقت ہو اس میں کسی طرح کی الزام تراشی سے کام نہ لیا گیا ہو تو مذکور لڑکے کو طلاق بالمال یا با ہمی رضامندی سے خلع پر تیار کیا جائے خلع کیلئے عدالت جانا کوئی ضروری نہیں جبکہ خلع بھی دیگر عقود مالیہ کی طرح ایک عقد ہے جس کی صحت کیلئے فریقین کی باہمی رضا مندی اور باقاعدہ ایجاب و قبول شرط ہے، جو کہ عموما مروجہ یکطرفہ عدالتی خلع میں مفقود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ایسی ڈگری کے جاری ہو جانے کے باوجود نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ بدستور قائم رہتا ہے۔ اس لئے بجائے عدالت کے چکر لگانے کے آپس میں بیٹھ کر مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
كما في المبسوط (قال) والخلع جائز عند السلطان وغيره لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية الترام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد اھ( ج ۶، ص ۱۷۳)