میر ا سوال یہ ہے کہ مجھے میرے شوہر نے دو سال پہلے طلاق دے دی تھی اور چاروں بچیاں میرے پاس ہیں , مسئلہ یہ ہے کہ بچیاں اپنے باپ سے بات نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی ملنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ نشے میں فحش بکتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے اور مجھ پرتہمت لگاتا ہے , مجھ سے جب تک بنا میں اپنے بچوں کو ملنے کے لئے بھیجتی رہی , اب بچیاں بڑی ہو گئی ہیں , وہ خرچ بھی نہیں دیتا , اس کے باوجود بچیاں ملتی تھیں -
اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا تعلق توڑنا صحیح ہے ,اللہ ناراض تو نہیں ہو گا ؟ مہربانی فرماکر رہنمائی فرمائیں - شکریہ
واضح ہو کہ مذکور لڑکیوں کے بالغ ہونے تک ان کی پرورش کا حق سائلہ کو حاصل تھا لیکن اب اگر وہ بالغ ہو چکی ہوں تو والد انہیں اپنی تحویل میں لے سکتا ہے لیکن اگر کسی عذر ِشرعی کی وجہ سے والد بچیوں کو اپنی تحویل میں نہ لے اور سائلہ کے پاس رہنے کیوجہ سے ان کے کسی فتنےمیں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو سائلہ کے پاس رہ سکتی ہیں لیکن سائلہ کیلئے بلاکسی وجہ کے بچیوں کو ان کے والد سے ملنے نہ دینا قطع رحمی پر مبنی ہونے کیوجہ سے جائز نہیں جس سے احتراز لازم ہے۔
وفی بدائع الصنائع: فتترك في يد الأم بل تمس الحاجة إلى الترك في يدها إلى وقت البلوغ لحاجتها إلى تعلم آداب النساء والتخلق بأخلاقهن وخدمة البيت ولا يحصل ذلك إلا وأن تكون عند الأم ثم بعد ما حاضت أو بلغت عند الأم حد الشهوة؛ تقع الحاجة إلى حمايتها وصيانتها وحفظها عمن يطمع فيها لكونها لحما على وضم فلا بد ممن يذب عنها والرجال على ذلك أقدر.اھ(4/42)-
وفیھاایضاً: والجارية إن كانت ثيبا وهي غير مأمونة على نفسها لا يخلي سبيلها ويضمها إلى نفسه وإن كانت مأمونة على نفسها؛ فلا حق له فيها ويخلي سبيلها وتترك حيث أحبت وإن كانت بكرا لا يخلي سبيلها وإن كانت مأمونة على نفسها؛ لأنها مطمع لكل طامع ولم تختبر الرجال فلا يؤمن عليها الخداع.وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب اھ (4/43)-
خود مختار لڑکے کا والد کے ساتھ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر نہ کرنے میں کوئی حرج ہے؟
یونیکوڈ والدین کے حقوق 0