عزت مآب جناب مفتی صاحب! السلام علیکم !نہایت ادب سے گزارش ہے کہ میں اسلام آباد میں ایک قریبی مسجد میں جمعہ کی نماز اداکیا کرتا ہوں، مسجد ہذا میں مکروہ وقت ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد جمعہ کی پہلی اذان دی جاتی ہے، جس کے بعد سنتیں ادا کی جاتی ہیں، جبکہ تقریبا 20 سے 30 منٹ کے وقفہ کے بعد دوسری اذان دی جاتی ہے، دوسری اذان کے بعد پہلا خطبہ ادا کیا جاتا ہے پھر قرآن پاک اور احادیث کی روشنی میں کوئی اردو بیان دیا جاتا ہے جس کا دورانیہ 30 منٹ ہوتا ہے، اردو خطاب کے بعد لوگوں کو دعا مانگنے کا وقت دیا جاتا ہے اور پھر فوراً سے دوسرا عربی خطبہ دیا جاتا ہے، ان دو خطبوں کے دورانیہ میں بھی نئے آنے والے نمازی حضرات سنتیں ادا کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ میں نے پڑھا اور سنا ہے کہ ایک خطبہ سے دوسرے خطبہ کے دوران بالکل خاموشی سے بیٹھنا چاہیے اور نوافل اور سنتیں بھی ادا نہیں کرنی چاہیں، جو کچھ میں نے پڑھا اور سنا اس کے مطابق تو مسجد ہذا کی انتظامیہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے غلط طریقہ استعمال کررہی ہے کیونکہ اکثر نئے آنے والے نمازیوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جمعہ کی دونوں اذانیں ہوچکی ہیں جبکہ میرے خیال میں انتظامیہ اور امام صاحب اس غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں، اُردو خطاب کے دوران چندہ بھی اکٹھا کیا جاتا ہے اور لوگ خطبہ سننے کے ساتھ ساتھ تسبیحات بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں جبکہ دورانِ خطبہ جیب سے پیسے نکال کر چندہ بھی ادا کردیا جاتا ہے حالانکہ یہ وقت دو خطبوں کا درمیانی وقت ہے جس میں یہ سارے کام ممنوع ہیں، جبکہ میں نے اس کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی دیکھا ہے کہ ایک طرف تو خطبہ دیا جارہا ہوتا ہے تو دوسری طرف 2 لوگ ہاتھوں میں کپڑا تھامے خطبہ سننے والے دو زانو ہوکر بیٹھے ہوئے نمازیوں کے آگے گھوم رہے ہوتے ہیں اور نمازی حضرات بھی خطبہ سنتے سنتے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکال کر اس کپڑے میں ڈال دیتے ہیں جو میرے خیال میں غلط طریقہ ہے، یہ کام تقریبا سارے اہل مسلک کی مساجد میں ہورہا ہے، برائے مہربانی اگر میں غلط ہوں تو میری راہنمائی فرمائیں اور اگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں تو برائے مہربانی اپنے حلقہ احباب کے سارے امام صاحبان کو تصحیح فرمادیں ۔
جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان اتنا طویل وقفہ کرنا جن میں اردو و غیرہ کسی اور زبان میں وعظ و نصیحت بھی کی جائے، (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے ) تعامل امت کے خلاف عمل ہے، اس لیے مذکور مسجد کے امام صاحب اور انتظامیہ کو چاہیے کہ جمعہ کے دن جو وعظ و نصیحت کرنی ہے، وہ خطبہ شروع ہونے سے قبل ہی کی جائے، جبکہ خطبے کے دوران مسجد کے لئے چندہ اکٹھا کرنا بھی درست طریقہ نہیں، بلکہ مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ اگر مسجد کے لئے چندہ کی ضرورت ہو، تو خطبہ شروع ہونے سے قبل یا نماز سے فارغ ہونے کے بعد چندہ اکٹھا کیاجائے، اسی طرح جو لوگ خطبہ کے دوران مسجد میں آئے تو انہیں چاہیے کہ اس وقت سنتیں پڑھنے کے بجائے خاموشی سے خطبہ سنیں، اور نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد وہ سنتیں پڑھیں۔
كما في المبسوط للسرخسي: قال: "ولا ينبغي للإمام أن يتكلم في خطبته بشيء من حديث الناس" لأنه ذكر منظوم والتكلم في خلاله يذهب بهاءه فلا يشتغل به كما في خلال الأذان والذي روي أن عثمان رضي الله عنه كان يسأله الناس عن سعر الشعير وعن سعر الزيت فقد كان ذلك قبل الشروع في الخطبة لا في خلالها والذي روى أن عمر رضي الله عنه قال لعثمان رضي الله عنه حين دخل وهو يخطب أية ساعة المجيء هذه الحديث فقد كان ذلك منه أمرا بالمعروف والخطبة كلها وعظ وأمر بمعروف اه(۴۷،۲)
وفي بدائع الصنائع : اما محظورات الخطبة فمنها انه يكره الكلام حالة الخطبة وكذا قراءة القرآن وكذا الصلوة اه (۲۶۳،۱۱)
و في الدر المختار : ويسن (خطبتان خفيفتان وتكره زيادتهما على قدر سورة من طوال المفصل ( بجلسة بينهما ( بقدر ثلاث آيات على المذهب اه (۲) ۱۴۸