میری اہلیہ نے ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر جانے سے اپنے کو منع کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیں وہاں گئی تو پھر زن طلاق ہو گی ؟ اب اس شرط کو ختم کرنے کا کفارہ کیا ہو گا ؟
سائل کی بیوی نے رشتہ دار کے گھر جانے سے منع کرنے کے موقع پر جو جملہ استعمال کیا ہے شرعاً اس سے تعلیق منعقد نہیں ہوئی، لہذ ا شرعاً ا س کا کوئی کفارہ بھی نہیں، اور نہ ہی رشتے داروں کے ہاں جانے سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع ہوگی۔
کمافي الفقه الإسلامي وادلته: جعل الطلاق بيد الزوج لا بيد الزوجة بالرغم من أنها شريكة في العقد حفاظاً على الزواج، وتقديراً لمخاطر إنهائه بنحو سريع غير متئد؛ لأن الرجل الذي دفع المهر وأنفق على الزوجة والبيت يكون عادة أكثر تقديراً لعواقب الأمور، وأبعد عن الطيش في تصرف يلحق به ضرراً كبيراً، فهو أولى من المرأة بإعطائه حق التطليق لأمرين:الأول إن المرأة غالباً أشد تأثراً بالعاطفة من الرجل اهـ(360/7)
وفي الشامية:(طلاق )ينقص العدد (لو ابیٰ لا لو ابت )لان الطلاق لا يكون من النساء اهـ (190/3) .