السلام علیکم !
جناب مجھے میرے شوہر نے تین بار”طلاق دیتاہو“کہا تھا جس پربعد میں وہ کہتاہے کہ میں نے دوطلاق بولاتھا اورایک بار ہلاک بولا تھا ،اب پھر اس سے لڑائی ہوئی اس نے وائس میسج میں بھی کہا کہ میں آج سے تمہیں اپنی بیوی نہیں مانتا اوریہ بھی کہاہے آج سے آزاد ہو اس نے میسج بھی لکھا ہےکہ آج سے خود کوآزاد سمجھو میری طرف سے , تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
سائلہ کابیان اگر درست اور حقیقت پر مبنی ہوتوسائلہ کے شوہر نے جب سائلہ کو دو طلاقیں دیکر تیسری مرتبہ ہلاک کا لفظ کہا تھااس لفظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی البتہ پہلے دو الفاظ سے دو طلاقیں واقع ہو چکی تھیں اس کے بعد سائلہ کے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی تھا چنانچہ سائلہ کے شوہر نے اگر دورانِ عدت یارجوع کرنے کے بعد میسج پر یہ جملہ کہاہو کہ ( آج سے تم آزاد ہو) تو اس سے سائلہ پر تیسری طلاق بھی واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اب رجوع نہیں ہو سکتا اور بغیر حلالۂ شرعیہ کے دونوں کا باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،جبکہ سائلہ ایامِ عدت کے بعد اپنی مرضی سے کسی دوسری جگہ عقدِ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے ۔
کمافی الهندية : وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية (٤٧٣/١)
ولو قال لامرأته أنت مني بثلاث و نوى الطلاق طلقت لأنه نوى ما يحتمله وإن قال لم أنو الطلاق لم يصدق إن كان في حالة مذاكرة الطلاق لأنھا لا يحتمل الرد ولو قال أنت بثلاث وأضمر الطلاق يقع كانه قال أنت طالق بثلاث كذا في المحيط وظاهره أن أنت مني بثلاث وأنت بثلاث بحذف مني سواء في كونه كناية وأما أنت الثلاث فليس بكنایة اه (٣/٢٨۰)
وفی رد المحتار : قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية،(۲۹۹/۳)