مفتی صاحب! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی پچھلی (دبر) کی جانب جماع کرے، جس کی اجازت نہیں دی گئی، میں نے سنا ہے کہ اس کا نکاح فاسد ہو جائے گا، کیا یہ سچ ہے ؟ فاسد کیا ہوتا ہے؟ اور کس وجہ سے پچھلی جانب سے جماع کی اجازت نہیں ہے؟ کیا یہ اس بناء پر ہے کہ اس میں عورت کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جس عورت سے وہ جماع کرتا ہے اسے تکلیف نہیں ہوتی تو کیا اس بات کی اجازت ہوگی؟ مہربانی فرما کر جواب دیں، کیونکہ. بہت سارے لوگوں نے مجھ سے اسک ے متعلق سوالات کئے تھے اور میرے پاس جواب نہیں تھا ۔
عورت کے پچھلے راستے سے جماع کرنا غیر اسلامی اور غیر فطری عمل ہے ،آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور ایسے شخص کو جو اپنی بیوی کے پچھلے راستے سے جماع کرتا ہے، ملعون قرار دیا ہے اور ایسے شخص سے برأت کا اظہار فرمایا ہے، اس فعل بد کی حرمت کا مدار تکلیف اور عدم تکلیف پر نہیں ،بلکہ شریعت کی طرف سے پابندی اور ممانعت ہے، تاہم اگر کسی نے ایسا فعل بد کر لیا تو اس سے عقد نکاح متاثر نہیں ہوتا ۔
وفي مرقاة المفاتيح: وعن خزيمة بن ثابت أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إن الله لا يستحي من الحق لا تأتوا النساء في أدبارهن» . رواه أحمد، والترمذي، وابن ماجه، والدارمي. اھ (5/ 2094)
وفي اعلاء السنن: عن أبي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ملعون من أتى إمرأته في دبرها اھ (۱۱/ ۲۷۷)
وفي مرقاة المفاتيح: وعن ابن عباس قال: رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «لا ينظر الله إلى رجل أتى رجلا أو امرأة في الدبر» . رواه الترمذي اھ (5/ 2094)
وفي البحر الرائق: وفي الينابيع ولا يحل له أن يأتي زوجته في الدبر إلا عند أصحاب الظاهر وهو خلاف الإجماع اھ (8/ 220)
ماہواری کے ایام ، عادت کے مطابق ، پورے ہونے پر ،غسل کے بعد بیوی سے ہمبستری کی اور پھر خون آنا شروع ہوگیا
یونیکوڈ آداب و احکام صحبت 0بیوی کا ہمبستری پر راضی نہ ہونے کی صورت میں تہہ بند کے اوپر سے مباشرت کرنا
یونیکوڈ آداب و احکام صحبت 0