محترم مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! عید الفطر کے موقعہ پر ہمارے مولوی صاحب نے بنوری ٹاؤن کے کسی عالم صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے تقریر میں فرمایا کہ عید کے موقع پر مسجد میں ثواب کی غرض سے ملنا جائز نہیں ہے اور عید مبارک کہنا بھی درست نہیں ہے۔ کیا یہ شرعی لحاظ سے انہوں نے درست کہا ہے؟
۲ ۔ ہم سب گھر والے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں ،میں خود بھی بیمار ہوں کافی علاج کر ایا لیکن صحت یاب نہیں ہوا، بنیادی طور پر میرا شعبہ سرکاری زمینوں کی حفاظت کرنا ہے، وہاں میں نوکری کرتا ہوں، میں اور میری والدہ باقاعدہ نمازی ہیں، تلاوت بھی کرتے ہیں، لیکن میرے ذہن پر ہروقت بوجھ رہتا ہے یہی حال میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کا ہے، ، الحمد للہ بیوی کے ساتھ شروع سے اب تک تعلقات اچھے ہیں، کوئی ناراضگی نہیں، البتہ والدہ صاحبہ ہماری شادی کے خلاف تھیں، لیکن شادی کے دن سے اب تک اس معاملہ میں وہ بھی مطمئن اور خوش ہیں، آپ سے گذارش ہے کہ ہم پر کوئی جادو وغیرہ تو نہیں ہے اگر ہے تو علاج بتائیں یا پھر ذہنی بے سکونی ، بیماری کا علاج بتائیں، دوائی یا وظیفہ۔ مہربانی ہوگی۔ جزاک اللہ خیرا
مصافحہ اور معانقہ اوّل ملاقات کے وقت ہوتا ہے، اس لیے عیدین کے دن اگر کسی سے ملاقات ہو تو اس دوران مصافحہ اور معانقہ اور عید مبارک کہنا شرعاً جائز اور درست ہے، مگر اس کو عید کے ساتھ مخصوص کرنا اور عید کے واجبات یا سنتوں میں سے قرار دینا، جیسا کہ بعض جہال کے عمل سے معلوم ہوتا ہے، درست نہیں۔
۲۔ ذہنی بے سکونی ختم کرنے کے لیے نماز اور تلاوت وغیرہ کا اہتمام کیا کریں اور اس کے ساتھ ساتھ صبح وشام کے وظائف کی پابندی اور قرآن کریم کی آخری تین سورتیں ’’قل ھو اللہ احد، قل أعوذ برب الفلق، قل أعوذ برب الناس‘‘ پڑھ لیا کریں ان شاء اللہ جادو کا اثر نہیں ہوگا۔
ففی أعلاء السنن: وأخرج الطبرانی عن أنس – رضی اللہ عنه- قال: کانوا إذا تلاقوا تصافحوا وإذا قدموا من السفر تعانقوا و سکت عنہ الحافظ فی الفتح اھ (۱۷/۴۳۲)-
وفی حاشية ابن عابدين: قد يقال إن المواظبة عليها بعد الصلوات خاصة قد يؤدي الجهلة إلى اعتقاد سنيتها في خصوص هذه المواضع وأن لها خصوصية زائدة على غيرها مع أن ظاهر كلامهم أنه لم يفعلها أحد من السلف في هذه المواضع، وكذا قالوا بسنية قراءة السور الثلاثة في الوتر مع الترك أحيانا لئلا يعتقد وجوبها ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال، لأن الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - ما صافحوا بعد أداء الصلاة، ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولا ويعزر ثانيا ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع، إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات فحيث وضعها الشرع يضعها فينهى عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ. (6/ 381)-
بعد نمازِ عیدین، دعا سے متعلق حضرت تھانوی اور حضرت انور شاہ صاحب کے فتاویٰ کے درمیان تعارض
یونیکوڈ عیدین 0عیدین اور نمازِ جمعہ کی جماعت میں شرکت نہ کرنے والےسیکیورٹی اہلکاروں کے لۓ نماز کا حکم
یونیکوڈ عیدین 0