کیا فرماتے ہیں علماءِکرام اس بارے میں کہ ہمارے علاقے میں ’’جدبا‘‘ نامی ایک گاؤں ہے جس میں پانچ محلے ہیں اور ہر محلہ میں الگ الگ مسجدیں آباد ہیں، ہر مسجد کا مستقل امام ہے ، اس گاؤں میں تقریباً ساٹھ سال سے جمعہ کی نماز ادا کی جارہی ہے، جبکہ اس علاقہ کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس میں علاقہ کی مناسبت سے عام ضروریاتِ زندگی میسر ہیں، مثلاً آٹا، چینی، چاول، اور گھی وغیرہ دستیاب ہیں، اور علاقے کے مناسب وہاں ہسپتال بھی قائم ہیں اور ہوٹل بھی موجود ہیں جن میں مسافر بھی بوقتِ ضرورت رہائش پذیر ہوتے ہیں اور علاقے کے لحاظ سے یہ گاؤں مرکزی شمار ہوتا ہے، اور ان مجموعہ پانچ محلوں کی آبادی تقریباً سات سو کے لگ بھگ ہے۔
مذکور تفصیل کے پیشِ نظر آپ سے فقہ حنفی کی روشنی میں یہ معلوم کرنا ہے کہ اس مذکور گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس معاملہ میں لوگ فتوے کے منتظر ہیں، اور جس قسم کا بھی فتوی ہو تو لوگ اس کے ماننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اور شہر و قصبات میں صحیح ہے قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی چار ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو جس میں دکانیں چایس پچاس متصل ہوں، اور بازار روزانہ لگتا ہو، اور اس بازار میں ضروریات روز مرہ کی ملتی ہوں، مثلاً جوتا کی دکان بھی ہو، کپڑے کی بھی، عطا ر کی بھی ہو، بزاز کی بھی، غلہ کی بھی اور دودھ گھی کی بھی اور وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہوں ،معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو اور پولیس کا تھانہ یا چوکی بھی ہو اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں، لہذا جس بستی میں یہ شرائط پائی جائیں گی وہاں جمعہ جائز ہوگا ورنہ نہیں، اور سوال میں مذکور جس بستی کا ذکر ہے اس میں شرائطِ جمعہ نہیں پائی جاتیں ، جس کی بناء پر وہاں کے باشندوں پر بجائے نمازِ جمعہ کے، نمازِ ظہر فرض ہے، اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں جمعہ تو ادا ہوگا نہیں اور نمازِ ظہر ذمہ میں باقی رہے گی اس لئے اُنہیں چاہیئے کہ نمازِ ظہر ہی ادا کیا کریں۔
وفی الہدایۃ: لا تصح الجمعۃ الا فی مصر جامع اوفی مصلی مصر ولا تجوز فی القری لقولہ علیہ السلام لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحٰی الا فی مصر جامع۔ (ج۱، ص۱۶۸)۔
قال العلامۃ الکاسانیؒ فی تعریف المصر و روی عن ابی حنیفۃؒ انہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک و اسواق و لہا رساتیق وفیہا وال قدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحشمہ وعلمہ او علم غیرہٗ والناس یرجعون الیہ فی الحوادث وہو الاصح۔(بدائع: ج۲، ص۲۶۰)۔