کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا ایک تعلیمی ادارہ ’’آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج‘‘ ٹھٹہ شہر سے تقریباً سات کلو میٹر دور ہے، ادارہ کے اندر آفیسروں کے لئے دو بنگلے ہیں، آج کل اساتذہ، اسٹاف اور شاگردوں سمیت تقریباً دو سو چالیس (۲۴۰) افراد ادارہ کے اندر ہاسٹل میں رہتے ہیں، البتہ ویکیشن کی چھٹیوں میں بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں۔
ہم کو نمازِ جمعہ کا مسئلہ ہے، آج کل تقریباً دو سو (۲۰۰) افراد کو ٹھٹھہ شہر جانا پڑتا ہے، اگر ہمیں اپنی مسجد میں نمازِ جمعہ کرنے کی اجازت مل جائے تو بہت آسانی ہوگی اور کچھ نمازی بھی اور بڑھ جائیں گے۔
یہاں پر بعض احباب کا خیال ہے کہ یہاں پر نمازِ جمعہ اس لئے نہیں ہوسکتی کیونکہ قریب میں کوئی مستقل شہری آبادی نہیں۔
اب سوال عرض ہے کہ آیا ان حالات میں ادارہ کے اندر والی مسجد میں نمازِ جمعہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ چھٹیوں میں اتنے افراد ہوتے ہیں کہ نمازِ جمعہ ہوسکے اور روزانہ پانچ اذان اور جماعت پانچ وقت ہوتی ہے اور نماز کیلئے اذنِ عام بھی ہے۔
امید ہے جواب جلد عنایت فرمائیں گے۔ شکریہ
اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اور شہر و قصبات میں صحیح ہے، قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی چار ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو جس میں دکانیں چالیس پچاس متصل ہوں اور بازار روزانہ لگتا ہو اور بازار میں ضروریات روز مرہ کی ملتی ہوں، مثلاً جوتا کی دکان بھی ہو کپڑے کی بھی، عطار کی بھی، بزاز کی بھی، غلہ کی بھی اور دودھ گھی کی بھی اور وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہوں معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو اور پولیس کا تھانہ یا چوکی بھی اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں،پس جس بستی میں یہ شرائط موجود ہوں گی وہاں جمعہ صحیح ہوگا ورنہ صحیح نہ ہوگا۔ (ماخوذ از امداد الاحکام: ج۱،ص۷۵۶)
اس کے بعد واضح ہو کہ کوئی جگہ محض اسکول ہونے کی وجہ سے شہر یا قریۂ کبیرہ نہیں کہلاسکتی اس لئے مذکور اسکول اور اس کے آس پاس کے علاقہ میں نمازِ جمعہ و عیدین کی ادائیگی درست نہیں اس کے بجائے نمازِ ظہر باجماعت کا اہتمام کیا جائے اور وہاں کے باشندوں پر نمازِ جمعہ کیلئے ٹھٹھہ شہر جانا واجب نہیں۔
قال علیؓ: لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحٰی الا فی مصرٍ جامع او مدینۃ عظیمۃ۔(اعلاء السنن: ج۱، ص۸)۔
وفی الشامیۃ: عن ابی حنیفۃؒ انہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک واسواق ولہا رساتیق وفیہا وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم۔ الخ (ج۲، ص۱۳۷)۔