کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب نے عید الأضحیٰ کی نماز پڑھائی اور دوسری رکعت میں تین واجب تکبیرات بھول گئے اور رکوع میں چلے گئے اور اس طرح امام صاحب نے بغیر سجدہ سہو کے عید الأضحیٰ کی نماز پڑھا لی ہے ، آیا اب عید الأضحیٰ کی نماز ہوئی یانہیں؟ اور ایسے امام کی اقتداء میں بعض مقتدیوں نے رکوع نہیں کیا اور سجدہ میں امام صاحب کے ساتھ گۓ ہیں ، اب ان مقتدیوں کی عید الاضحیٰ کی نما زہوئی یا نہیں؟
اگر عیدین کی نمازوں میں کثرتِِ جماعت کی صورت میں سجدۂ سہو سے فساد کا اندیشہ ہو تو اس کے ترک میں حرج نہیں، نماز درست ہو جاتی ہے، جبکہ مذکور مقتدیوں نے اگر امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد رکوع کر لیا ہو تو ان کی بھی نماز درست ادا ہو چکی ہے، لیکن اگر انہوں نے بالکل ہی رکوع چھوڑ دیا ہو تو تارکِ فرض ہونے کی وجہ سے ان کی نماز نہیں ہوئی ،اور اب ان کے ذمہ قضاء پڑھنا بھی لازم نہیں۔
ففی الدر المختار: (والسهو في صلاة العيد والجمعة والمكتوبة والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرين عدمه في الأوليين لدفع الفتنة (2/ 92)۔
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:(و لايصليها وحده إن فاتت مع الإمام) ولو بالإفساد اتفاقا في الأصح كما في تيمم البحر، وفيهايلغز: أي رجل أفسد صلاة واجبة عليه ولا قضاء؟ (و) لو أمكنه الذهاب إلى إمام آخر فعل لأنها (تؤدى بمصر) واحد (بمواضع) كثيرة (اتفاقًا)."(رد المحتار2/ 175ط:سعيد)۔
بعد نمازِ عیدین، دعا سے متعلق حضرت تھانوی اور حضرت انور شاہ صاحب کے فتاویٰ کے درمیان تعارض
یونیکوڈ عیدین 0عیدین اور نمازِ جمعہ کی جماعت میں شرکت نہ کرنے والےسیکیورٹی اہلکاروں کے لۓ نماز کا حکم
یونیکوڈ عیدین 0