کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس بارے میں کہ :
(۱) گزشتہ دنوں ہماری محلہ کی مسجد میں امام صاحب نے صحن میں نماز پڑھانا شروع کیا کہ مسجد کے اندر پنکھے چلتے ہیں اس طرح سے بجلی کی بچت ہو جائے گی مگر اس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ امام صاحب محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز پڑھائیں ، یہ ضروری ہے اور محراب کو خالی نہیں چھوڑنا چاہئے ، امام صاحب محراب سے ہٹ کر نماز پڑھاسکتے ہیں یا نہیں؟
(۲) ہماری فیکٹری کی مسجد میں باہر کے لوگوں کو اندر آنے کی قطعاً اجازت نہیں ،مسجد کے باہر روڈ پر پارکنگ کی جگہ ہے اس پر دری بچھا کر باہر والے نمازیوں کیلئے نماز کا انتظام کیا جائے تو کیا یہ درست ہے ؟ اور اس میں نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے مسجد کی پارکنگ کی جانب سے کوئی دروازہ وغیرہ نہیں ہے۔
(۳) قاری صاحب مجھے اور دو بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے گھر آتے ہیں ، بچوں کو ظہر سے پہلے اور عصر کے بعد دونوں وقت ملاکر ایک گھنٹہ بنتا ہے ، میں نے قاری صاحب سے گھر آ کر پڑھانے کے سلسلے میں ماہانہ طے نہیں کیا تھا لیکن میں نے بطور ماہانہ تین سو روپے قاری صاحب کو دئیے تھے ، قاری صاحب نے تقریباً چار دن بعد کہا کہ یہ روپے بطور ماہانہ کم ہیں، ایسے ناظرہ قرآن پڑھانے پر روپے دینا ماہانہ طے کرنا قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں؟
(۱) امام کیلئے محراب میں کھڑا ہونا سنت یا واجب نہیں بلکہ سنت یہ ہے کہ امام صف کے درمیان میں کھڑا ہوا اور محراب عام طور پر مسجد کے وسط میں ہی ہوتا ہے ، اس لئے عموماً محراب میں کھڑا ہونے سے یہ سنت ادا ہوجاتی ہے ، لیکن اگر محراب میں کھڑا ہونے سے کوئی دوسری سنت فوت ہونے لگے مثلاً تسویۂ صف وغیرہ تو اس وقت بجائے محراب کے ایسی جگہ کھڑا ہو کہ صفوف سیدھی ہوجائیں اور اس میں بھی یہ خیال ملحوظ رہے کہ امام وسط میں ہی رہے لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مقتدیوں کا امام صاحب کیلئے محراب میں کھڑا ہونے کو ضروری اور لازمی قرار دینا اور اس پر اعتراض کرنا قطعاً درست نہیں ، انہیں چاہئے کہ اپنے مذکور رویہ سے مکمل احتراز کریں۔
(۲) صورتِ مسئولہ میں مذکور کمپنی کسی شہر یا شہر کے متصل یعنی اس کے فناء میں واقع ہے تو ایسی صورت میں اس کمپنی میں نمازِ جمعہ قائم کرنا شرعاً جائز اور درست ہے مگر نمازِ جمعہ کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنا ہے اس لئے اگر قریب کی کسی بڑی جامع مسجد جانے کی کوئی صورت بن سکتی ہو تو وہاں جانا بہتر اور افضل ہے۔
اور اگر ایسا ممکن نہ ہو اور سوائے اپنی کمپنی میں قیامِ جمعہ کے ، نمازِ جمعہ کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہو تو اس صورت میں اس کمپنی میں ہی قیامِ جمعہ کی ترتیب بنالینا جائز ہے ، پھر اگر کمپنی کے انتظام میں خلل پڑے یا کسی دوسرے نقصان وغیرہ کی بناء پر اگر باہر سے آنے والوں کے داخلہ کی اجازت نہ بھی ہو ، تب بھی اس میں کچھ حرج نہیں جبکہ پارکنگ ایریا میں اگر صفوف کا اتصال ہوتا ہو تو ان لوگوں کی نماز بھی درست ہوگی ، البتہ اگر باہر سے آنے والوں کیلئے چیک پوسٹ قائم کرکے ان کو بھی اجازت دے دی جائے تو ایسا کرنا بہر حال بہتر ہے۔
(۳) قاری یا مدرس حضرات تعلیمِ قرآن و حدیث کیلئے اپنے اوقات کو فارغ کرتے ہیں اس لئے اپنے وقت کی اجرت لینا بھی ان کیلئے جائز اور درست ہے لہٰذا قاری صاحب موصوف کا مطالبہ شرعاً جائز اور درست ہے اور باہم مشورہ سے جو معاوضہ طے ہوجائے اس کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔
فی الدر المختار : (و یصف) ای یصفہم بان یأمرہم بذٰلک قال الشمنی ان یامرہم بان یتراصوا و یسدوا الخلل و یسووا مناکبہم و یقف وسطًا الخ۔ و فی الرد : فی مبسوط بکر : السنۃ أن یقوم فی المحراب لیعتدل الطرفان و لو قام فی أحد جا نبی الصف یکرہ۔ اھـ(ج۱، ص۵۶۸)۔
عن أبی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ وسطوا الإمام و سدّوا الخلل۔(سنن ابی داؤد: ج۱، ص۹۹) ۔
فی الدر المختار : و الاذن العام من الامام ، و ہو یحصل بفتح أبواب الجامع للواردین ،کافی، فلا یضر غلق باب القلعۃ لان الاذن العام لاہلہ و غلقہ لمنع العدو لا المصلی۔ اھـ(ج۲، ص۱۵۲)۔
فی الشامیۃ : قلت و یؤیدہ قول الکافی و اجلس البوابین۔ الخ (ج۲، ص۱۵۲)۔
و یفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن و الفقہ و الإمامۃ و الاذان۔ اھـ (الہندیۃ: ج۶، ص۵۵)۔