محترم مفتیان کرام دارالافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
فورسیج نامی کاروبار سے متعلق آپ کے دارالافتاء کی طرف منسوب ایک فتوی (سیریل نمبر 26914) سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے ، جس میں اس کاروبار سے متعلق جواز کا حکم لکھا گیا ہے ، جس کی وجہ سے کافی لوگ آپ لوگوں کے اعتماد پر اس کاروبار میں شریک ہو رہے ہیں، اس سلسلہ میں آپ حضرات سے یہ معلوم کرنا تھا ، کہ یہ فتوی واقعۃ آپ کے دارالافتاء سے جاری شدہ اور مطابقِ اصل ہے یا محض فوٹو شاپ کے ذریعہ ایڈیٹنگ کر کے جعلی فتوی کی نسبت آپ کے ادارے کی طرف کی جا رہی ہے؟ اگر یہ فتوی جعلی ہے ، تو فورسیج نامی کاروبار کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ کاروبار شریعت کے مطابق ہے ؟ اور اس میں انویسمنٹ کرنا جائز اور محفوظ ہے یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل نے سول میں جس فتوی ( سیریل نمبر 26914) کا حوالہ دیاہے،اس سیریل نمبرپر ”فورسیج “ نامی کاروبار کے متعلق دارالافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ سے کوئی فتوی جاری نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کے علاوہ فورسیج سے متعلق دارالافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ سے جواز کا کوئی فتوی جاری ہواہے، بلکہ اس سیریل نمبرپر تکافل سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب جاری ہواہے، جس میں کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے فوٹو شاپ وغیرہ کے ذریعہ ردوبدل (Editing) کرکے اس جعلی فتوی کو دارلافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ کی طرف منسوب کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اس کو استعمال کیا اور عوام میں اس کی تشہیر کی ، جو کہ نہ صرف یہ کہ اخروی پکڑ کا باعث ہے، بلکہ قانونا بھی ایک قابل مواخذہ جرم ہے، لہذا حکومتی مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ اپنے فرائض منصبی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس طرح کے جعلسازوں کے خلاف ضابطے کی کاروائی عمل میں لائیں تاکہ ان مذموم حرکات کی روک تھام کویقینی بنایاجاسکے اور عوام کو بھی چاہیے کہ بلاتحقیق اس طرح کے جعلی فتوؤں کی تشہیر کرکے غیردانستہ طورپران جعلسازوں کے مذموم مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہ بنیں۔
جبکہ فورسیج نامی کاروبارسے متعلق اب تک جو معلومات موصول ہوئی ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک”ملٹی لیول مارکیٹنگ“ کے تحت چلنے والا ایک نظام ہے، جس کا بنیادی مقصد کسی پروڈکٹ (کرنسی وغیرہ) کی خریدفروخت اور کاروبار کرنا نہیں ہوتا، بلکہ محض ممبرشپ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس چین میں شامل کرکے ان سے سرمایہ اکٹھا کرناہے، جس کے لیے ممبران کو” نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کے طریقہ کارپر ڈاؤن چین میں شامل ہونے والوں کی رقم سے کمیشن کی لالچ دیکر کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔
چنانچہ فورسیج نامی کاروبار کے طریقہ کا پر غور وفکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس میں درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں۔
• فورسیج نامی کاروبار میں درحقیقت مصنوعات کی خریدفروخت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ممبر بننے والوں کا یہ مقصد ہوتاہے، بلکہ کمپنی کو اپنی تشہیر کے لیے زیادہ سے زیادہ ممبرز اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے کمپنی لوگوں سے مخصوص رقم لیکر اس چین کا حصہ بنالیتی ہے اور مزید لوگوں کو شامل کرنے کے لیے انہیں ایک لنک دیاجاتاہے، پھر اگرکوئی شخص اس پرانے ممبرکے توسط سے اس چین کا حصہ بنتاہے، تو اس کی رقم سے پرانے ممبر کو کمیشن دیاجاتاہے، اور یہ سلسلہ کمیشن درکمیشن چلتا رہتاہے، لیکن اگر کوئی ممبر مزید لوگوں کو شامل کرنے میں ناکام رہے، تو اس کو کمیشن کی صورت میں منافع بھی نہیں ملتا، جو کہ غرر اور قمارکی ایک صورت ہے۔
• اس بلاک چین میں کمپنی اور ممبر کے درمیان ہونے والے معاملے کی حیثیت اور نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں ، بلکہ ایک مجہول عقد کے نتیجے میں اسے نفع مل رہا ہوتاہے۔
• اس کمپنی میں بالواسطہ ممبرز بننے والوں کے عمل سے ماقبل کے ممبرکو بغیر کسی محنت وعمل کے منافع مل رہاہے، جو شرعاجائز نہیں۔
لہذا فارسیج کمپنی میں محض ممبر سازی کے تحت لوگوں کو کمیشن کی لالچ دیکر ان سے سرمایہ اکھٹا کرنا ہی اصل مقصد ہے، کسی چیز کی خریدفروخت اور کاربار مقصود نہیں ، اس لیے اس کمپنی کا ممبر بننے یا دوسرے لوگوں کو اس اس میں شمولیت کی دعوت دینے سے اجتناب لازم ہے۔
قال اللہ سبحانہ و تعالی :﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(المائدة:90)۔
و لا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار ، و أن المخاطرۃ من القمار ، قال ابن عباس : إن المخاطرۃ قمار ، و إن أہل الجاہلیۃ کانوا یخاطرون علی المال و الزوجۃ ، و قد کان ذلک مباحاً إلی أن ورد تحریمہ۔(فی أحکام القرآن للجصاص: ۱/۳۹۸)۔
نہی رسول اللّٰہ صلى الله عليه و سلم عن بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، ابوداؤد: 6۷۳۳)۔
و لو کان الخطر من الجانبین جمیعًا و لم یدخلا فیہ محللاً لا یجوز ؛ لأنہ في معنی القمار ، نحو أن یقول أحدہما لصاحبہ : إن سبقتني فلک عليّ کذا ، و إن سبقتک فلي علیک کذا ، فقبل الآخر"(بدائع الصنائع فصل في شروط جواز السابق ۸/۳۵۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔
لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى ، و سمي القمار قماراً ؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه و هو حرام بالنص۔(شامی: 6/403)۔
تصاویر والے ڈبوں اور پیکٹوں میں پیک شدہ اشیاء کا کاروبار/نسوار اور سگریٹ کا کاروبار
یونیکوڈ کاروبار 0