السلام علیکم!
میں درجِ ذیل امور پر آپ کی رائےچاہتا ہوں، میں ایک سافٹ ویئر انجینیر ڈیولپر ہوں، اور مجھے نوکری کا موقع ملا ہے، نئی کمپنی ٹیکنالوجی کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہے، جو اپنے کلائنٹس میں سے ایک کے لئے میری خدمات حاصل کر رہی ہے، میری معلومات کی بنیاد ، کلائنٹ ایک انشورنس فراہم کنندہ ہے، جو اسلامی اور روایتی دونوں طرح کی انشورنس خدمات پیش کرتا ہے،مجھے یقین نہیں ہے کہ آیا میں اسلامی انشورنس، روایتی بیمہ کے لئے بنائے گئے نظام کی ترقی پر کام کروں ، یا کچھ فرقوں کے ساتھ ؟دونوں اقسام کے لئے ایک جیسے نظام بنائے گئے ہیں، میں نے ویب کا سرچ کیا ،تو کچھ ویڈیوز ملے، جن میں ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ ایسی کمپنی میں شامل ہونا حلال ہے ،کیونکہ آپ ٹھیک سروس فراہم کرنے والے کے پے رول پر ہیں، نہ کہ انشورنس سروس فراہم کرنے والے کے۔
براہ کرم یہ فیصلہ کرنے میں میری مدد کریں کہ مجھے اس کمپنی میں شامل ہونا چاہیئے یا نہیں ؟ اگر کمائی حلال نہیں ہے تو براہِ کرم درجِ ذیل امور پر اپنے خیالات کا اظہار کریں:
ابھی میں ڈومین میں ایک کلائنٹ کے لئے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں ،کیا ہوگا اگر انشورنس پرووائیڈ ڈمین کا ایک نیا پروجیکٹ سامنے آیا ہے اور میری کمپنی مجھے اس پروجیکٹ کے لئے تفویض کرتی ہے؟ اس صورت میں کمائی حلال ہوگی یا نہیں ؟ اگر آپ جلدی سے جواب دے سکیں تو میں بہت مشکور ہوں گا کیونکہ مجھے کل تک انہیں اپنے فیصلے کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت ہے۔ جزاک اللہ
صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل مذکور انشورنس کمپنی کیلئے کوئی ایسی خدمت ( سروس) فراہم کرے جس کا تعلق براہ ِراست انشورنس لین دین سے ہو ،جیسے کوئی ایسا سافٹ ویئر وغیرہ بنانا جو صرف انشورنس جیسے ناجائز معاملات میں ہی استعمال ہوتا ہو،اور اس کا جائز استعمال ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں سائل کا ایسی سروس فراہم کرنا شرعاً جائز نہیں ،اور اس کام پر ملنے والی اجرت بھی حلال و طیب نہ ہوگی، لہٰذا سائل کیلئے مذکور کمپنی میں لگ کر اس طرح کے ناجائز سروسز فراہم کرنا جائز نہیں، جس سے احتراز لازم ہے ،البتہ اگر اس سروس کا تعلق سودی بینک یا انشورنس جیسے ناجائز معاملات سے نہ ہو، تو ایسی صورت میں سائل کیلئے مذکور کمپنی میں نوکری کرنا شرعاً درست ہے ۔
کما قال اللہ تعالیٰ :الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ/275)۔
وفی تکملۃ فتح الملھم:ان التوظف فی البنوک الربویۃ لا یجوز ،فان کان عمل المؤظف فی البنک ما یعین علی الربا ،کالکتابۃ او الحساب،فذالک حرام لوجھین الاول اعانۃ اعلی المعصیۃ والثانی اخذ الاجرۃ من مال الحرام،فان معظم دخل البنوک حرام مستجلب بالربا،واما اذا کان العمل لا علاقۃ لہ بالربا فانہ حرام لوجہ الثانی فحسب،فاذا وجد بنک معظم دخلہ حلال ،جاز فیہ التوظف للنوع الثانی من الاعمال اھ(1/619)۔