کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک جگہ جو شہر سلطان (بڑا شہر) سے تقریباً تین کلومیٹر دور ہے اس کی آبادی تقریباً تین ہزار ہے، اس کا اپنا ڈاکخانہ، پانچ پرائمری سکول اور تقریباً ۱۰ یا ۱۲ مساجد بھی ہیں، جن میں سے بڑی مسجد ۶۰ فٹ کی ہے، ضرورت کی تقریباً تمام اشیاء مل جاتی ہیں سوائے کپڑے اور جوتے کے، قریبی شہر جو تین کلومیٹر دور ہے اس سے لے کرآجاتے ہیں، نیز اس جگہ پر تقریباً ۵۰ دکانیں بھی ہیں، اس جگہ کا نام مزار پور نالہ ہے، اہلِ علاقہ کی خواہش ہے کہ وہاں جمعہ کی ابتداء کی جائے، ان تفصیلاتِ بالا کی روشنی میں عند الشرع جمعہ وعیدین کی نماز وہاں جائز ہے یا نا جائز؟
سوال میں مذکور تفصیل اگر مبنی برحقیقت ہو تو اس صورت میں مذکور مقام موضعِ کبیر اور قریۂ کبیرہ معلوم ہوتا ہے، اس لۓ وہاں جمعہ وعیدین کا قیام شرعاً بھی جائز اور درست معلوم ہوتا ہے۔
البتہ اگر قریبی شہر کے معتمد علماء ومفتیانِ عظام کو اپنا علاقہ تفصیلی طور پر دکھا دیا جائے تو اس کے بعد ان کے فتویٰ پر عمل کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
في المصنف لابن ابى شيبة: عن على رضی اللہ عنه قال: لا جمعة، ولا تشريق ، ولاصلاة فطر ، ولا أضحى إلا في مصر جامع أو مدينة عظيمة اھ (۴/۴۶)۔
وفي الدر المختار: (ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول: (المصر (إلی قوله) (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) اھ (2/ 138)۔