کیافرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ،ہمارا تعلق ضلع ہری پور کے ایک دور دراز علاقہ سے ہے، ہمارے گاؤں کا ایک چھوٹا سا دیہات ہے، جس کی آبادی تقریباً پچاس، ساٹھ گھرانوں پر مشتمل ہے، سڑک اور بجلی کی سہولیات موجود ہیں ، دو تین دکانیں ہیں، جس میں روزمرہ ضروریات کی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں، ڈاکخانہ ہمارے بڑے گاؤں میں ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا مذکورہ دیہات میں نمازِ جمعہ ادا کی جائے گی یا نمازِ ظہر؟ یا اس دیہات میں نمازِ جمعہ جائز نہیں ؟ براہِ کرم درج بالا مسئلہ کا مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ شکریہ
نوٹ: مذکورہ دیہات میں افراد کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو نفوس پر مشتمل ہوگی ۔
اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اور شہر و قصبات میں صحیح ہے، قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی چار ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو، جس میں دکانیں چالیس ، پچاس متصل ہوں ، اور بازار روزانہ لگتا ہو ، اور اس بازار میں ضروریاتِ روز مرّہ کی تمام اشیاء ملتی ہوں ، مثلاً جوتے کی دکان بھی ہو ، اور کپڑے کی بھی ، عطّار کی بھی ہو ، بزّار کی بھی ، غلّہ کی بھی ہو اور دودھ گھی کی بھی اور وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہوں، معمار او رمستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ ، اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو اور پولیس کا تھانہ یا چو کی بھی ، اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں، جبکہ سوال میں مذکور گاؤں میں مندرجہ بالا شرائط مفقود ہیں، اس لۓ وہاں نمازِ جمعہ اور عیدین کا قیام شرعاً درست نہیں، اس کے بجائے نمازِ ظہر باجماعت پڑھنے کا اہتمام لازم ہے، ورنہ ظہر کے فرض چھوڑنے اور نوافل کی جماعت کا گنا ہ لا زم ہوگا،جس سے احتراز لازم ہے ۔
في حاشية ابن عابدين: ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اھ (2/ 137)۔