آج کل بعض علاقوں میں شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں دیگر رسوم کی طرح ایک رسم (نیوتہ) چل پڑی ہے جسے پشتو زبان میں ’’نیندرہ‘‘ اور اسی طرح مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ شادی میں مدعو افراد تقریب میں شرکت کے بعد لوٹتے ہوئے دعوت دینے والوں کو مختلف تحائف عموماً روپوں کی شکل میں دیتے ہیں، جسے اکثر اوقات بعد میں داخلِ دفتر بھی کر دیا جاتا ہے، اس غرض سے کہ جب کبھی تحائف دینے والوں کے ہاں کسی خوشی کے موقع پر اس کے ہم مثل چیز دی جا سکے، لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ کوئی جانور نیوتہ کے طور پر کسی شخص کو ملے تو آیا اس جانور کی قربانی کر سکتا ہے یا نہیں؟
شادی بیاہ کی تقریب میں ملنے والے تحائف کی دو حیثیتیں ہیں: ہبہ اور قرض، قرض یا ہبہ کا مدار علاقائی رسم ورواج پر ہے، چنانچہ بعض برادریوں میں ایسے تحائف بدل ملنے کی نیت سے بطورِ قرض دیئے جاتے ہیں اور ان کا حساب بھی لکھا جاتا ہے، پھر بعد میں کسی شادی کے موقع پر ضرور وصول کۓ جاتے ہیں، جبکہ بعض برادریوں میں بدل کی نیت کے بغیر اور بنا حساب کتاب تحفہ دیا جاتا ہے، چنانچہ بعد میں بدل مل گیا تو لے لیا ورنہ اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا۔
اس مختصر تمہید کے بعد واضح ہو کہ نیوتہ کی رسم میں ملنے والا جانور کی قربانی بہرحال جائز اور درست ہے، تاہم اگر یہ جانور بدل کی نیت (قرض کے طور پر) دیا جائے تو اصل حکم تو یہ ہے کہ یہ جانور مالک کو واپس کر دیا جائے، لیکن اگر واپس کرنے سے قبل اس کو ذبح کر دیا جائے تو پھر ایسی صورت میں اس جانور کی قیمت دینا لازم ہے۔
فی حاشية ابن عابدين: (قوله: وكذا زفاف البنت) أي على هذا التفصيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي. أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية. وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ (5/ 696)۔
وفی الدر المختار: فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة. (وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك (لا في غيره) من القيميات كحيوان وحطب وعقار وكل متفاوت لتعذر رد المثل. واعلم أن المقبوض بقرض فاسد كمقبوض ببيع فاسد سواء اھ (5/ 161)۔
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله لتعذر رد المثل) علة لقوله لا في غيره: أي لا يصح القرض في غير المثلي، لأن القرض إعارة ابتداء، حتى صح بلفظها معاوضة انتهاء، لأنه لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاك عينه، فيستلزم إيجاب المثلي في الذمة، وهذا لا يتأتى في غير المثلي قال في البحر: ولا يجوز في غير المثلي، لأنه لا يجب دينا في الذمة ويملكه المستقرض بالقبض كالصحيح والمقبوض بقرض فاسد يتعين للرد اھ (5/ 161)۔
وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (قوله كمقبوض ببيع فاسد) أي فيفيد الملك بالقبض كما علمت، وفي جامع الفصولين القرض الفاسد يفيد الملك، حتى لو استقرض بيتا فقبضه ملكه، وكذا سائر الأعيان وتجب القيمة على المستقرض اھ (5/ 161)۔