میں دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں:
1) میری بیوی گھریلو بیوی ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کر رہی۔ اس کے پاس چھ تولہ سونا اور کچھ نقدی ہے۔ اس لیے اسے الگ ذبیحہ (قربانی) کرنا پڑے گی یا میرے پورے خاندان کے لیے ایک ذبیحہ کافی ہے۔
2) میرا بیٹا تین سال کا ہے۔ اس کے نام پر میرے پاس ایک لاکھ کی رقم ہے۔ تو مجھے اس کی طرف سے ذبیحہ دینا ہوگا یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں چونکہ سائل کی بیوی اس کے پاس موجود زیورات اور کیش رقم کی وجہ سے صاحب نصاب ہے اس لیے اس پر مستقل قر بانی لازم ہوگی، اورخاندان میں کسی اور کی طرف سے کی جانے والی قربانی ان کی طرف سے کافی نہ ہوگی۔
جبکہ وجوب قربانی کے لیےموجودگی نصاب کے ساتھ ساتھ بلوغت بھی شرط ہے، اس لیے سائل کے ذمہ نابالغ بیٹے کی طرف سے قربانی لازم نہ ہوگی۔
’’وشرائطھا الإسلام والإقامۃ والیسار الذي یتعلق بہٖ وجوب ( صدقۃ الفطر ) ۔۔۔۔۔ (لاالذکورۃ فتجب علی الأنثٰی )۔ قال في الرد: (قولہ: وشرائطھا ) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریۃ ۔۔۔۔۔ ولا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ۔۔۔۔۔ ( قولہ والیسار) بأن ملک مائتي درھم أو عرضا یساویھا غیر مسکنہ وثیاب اللبس أو متاع یحتاجہ إلٰی أن یذبح الأضحیۃ ولو لہٗ عقار یستغلہٗ فقیل: تلزم لو قیمتہ نصابا ۔۔۔۔۔ فمتٰی فضل نصاب تلزمہٗ ولو العقار وقفا ، فإن واجب لہ فی أیامھا نصاب تلزم وصاحب الثیاب الأربعۃ لو ساوی الرابع نصابا غنی وثلاثۃ فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیا وبالمؤجل لا۔‘‘ (رد المحتار ، ج:۶، ص:۳۱۲۔ فتاویٰ ہندیہ ،ج:۵،ص:۲۹۲ ۔البحر ،ج:۸، ص:۱۷۴)