السلام علیکم ! پہلا سوال ! میری عمر بیس سال کے قریب تھی ، شادی شدہ تھا ، ہمارے گھر کی بیٹھک میں ایک بچی جو پانچ یا سات سال کی عمر کی ہوگی ، گھر سے پیسے چوری کرکے بیٹھک میں مٹی میں دبا دیتی تھی ، ایک دن جھاڑو دیتے ہوئے پتہ چلا کہ وہ ایک آنہ یا پانچ آنے وغیرہ تھے ، تین چار روپے تب کے زمانے کے ہوں گے ، وہ اٹھاکر میں نے رکھ دیے ، بعد میں وہ آئی بچی ، میں نے نہیں دیے اگنور کیا تا کہ اس کو سبق ملے اور وہ پیسے خرچ کر دیے ، اب وہ لوگ کدھر ہیں نہیں معلوم ، کیونکہ ہم لوگ دوسری جگہ ہجرت کرکے آئے ہیں ، مگر اسی شہر میں ، میری عمر ستر سال کے قریب ہے ، اب یہ قرض ہے تو کیا کیا جائے ؟ اگر وہ لوگ نہ ملیں تو بھی اس کا حل بتادیں ؟ اور کتنے پیسے بنیں گے ؟
دوم ! بیس سال کی عمر میں بازار میں دکاندار سے سوٹ لیا ، سوٹ آٹھ روپے کا تھا ، مگر میرے پاس سات روپے تھے ، اس کو کہا بعد میں دے دوں گی ، مرجاؤں تو بخش دینا ، اس نے کہا کہ نہیں آخرت میں لوں گا ، اس کے بعد میں اسے پیسے نہ دے سکی ، اب نہ وہ دکان یاد ہے نہ ہی دکاندار ، اس کا کیا حل ہے ، وہ ایک روپیہ کیسے اتارا جائے ؟ اور آج کے دور کی کتنی رقم بنے گی ؟
بہر دو صورت اگر سائلہ کو اب نہ اس بچی یا ان کے گھر والوں کا علم ہو ، اور نہ ہی اس دکاندار کا ، جبکہ فی الوقت ان کی معلومات حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو ، تو ایسی صورت میں سائلہ کو چاہیئے کہ اس وقت جتنے روپے ان کو لوٹانے لازم تھے ، اسی کے بقدر یا اس سے کچھ زائد رقم اصل مالک کی طرف سے صدقہ کردیں ، نیز اس کوتاہی پر اللہ تعالی سے بصدقِ دل توبہ و استغفار بھی کریں ، امید ہے اللہ تعالی آخرت کا مواخذہ نہ فرمائیں گے۔
کما فی ردالمحتار : والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، الخ۔ ( کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، ج۵ ، ص۹۹ ، ط۔سعید )۔
و فی الدرالمختار : (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) الخ۔ ( کتاب اللقطۃ ، ج۴ ، ص۲۸۳ ، ط۔سعید
قرض کی مدت پوری ہونے پر, قرضخواہ کا مقروض کے کاروبار میں, خود کو شریک سمجھ کر نفع کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ قرض 0