کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اور مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گاؤں جس کی آبادی تقریباًسترہ اٹھارہ سو افراد پر مشتمل ہے ، اور اس گاؤں میں پانچ دوسری مساجد اور ایک بڑی مرکزی مسجد ہے ، پوچھنا یہ ہے کیا اس میں نمازِ جمعہ شروع کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اس گاؤں میں سات یا آٹھ کر یانہ اسٹور ، تیل ایجنسی اور آٹے کی چکی بھی ہے ، اس کے علاوہ گورنمنٹ مڈل اسکول ، پرائیویٹ ہائی اسکول ، گورنمٹ پرائمری گرلز اسکول اور درزیوں کی دکانیں بھی ہیں ، جنازہ گاہ اور کفن کی دکان بھی ہے ، غرض یہ کہ روز مرہ استعمال کی تقریباً تمام چیزیں میسر ہیں ، اور گاؤں سے ملحق دو اور گوٹھ ہیں ، ایک گوٹھ تقریباً فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلہ پر ہے، جبکہ دوسرا ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ، ان دونوں کی مجموعی آبادی بھی لگ بھگ سترہ اٹھارہ سو ہے ، ان گوٹھوں سے جمعہ تقریباً آٹھ کلو میٹر دور ہو تا ہے ، جہاں ماسوائے دو چار آدمیوں کے کوئی بھی نہیں جاتا ، سب لوگوں کی خواہش اور تمنا ہے کہ اس مرکزی گاؤں میں جمعہ شروع کیا جائے۔جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء !
واضح ہو کہ عند الاحناف نمازِ جمعہ کی ادائیگی درست ہونے کے لئے شہر یا قصبہ ہو نالازم ہے ، اور ہمارے عرف میں قصبہ کی تعریف یہ ہے کہ جس کی آبادی کم از کم چار ہزار کے لگ بھگ ہو ، اور ایسا بازار موجود ہو جس میں دکانیں چالیس پچاس متصل ہوں ، اور بازار روزانہ لگتا ہو ، اور اس بازار میں ضروریات روزمرہ کی ملتی ہوں ، مثلاً جوتے کی دکان بھی ہو ، اور کپڑے کی بھی ، عطار کی بھی ہو ، بز از ( پارچہ فروش ) کی بھی ، غلہ کی بھی اور دودھ گھی کی بھی ، اور وہاں ڈاکٹر اور حکیم بھی ہوں ، معمار اور مستری بھی ہوں ، وغیرہ وغیرہ ، اور وہاں ڈاک خانہ بھی ہو ، اور پولیس کا تھانہ اور چو کی بھی ہو ، اور اس میں مختلف محلے مختلف نام سے موسوم ہوں ، لہٰذا جو بستی مندرجہ بالا صفات پر مشتمل ہو گی ، وہاں جمعہ پڑھنا درست ہو گا ورنہ نہیں ، جبکہ سوال میں جس گاؤں کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ بظاہر شہر یا قصبہ کی تعریف میں داخل نہیں ، اس لئے وہاں جمعہ کی ادائیگی درست نہ ہو گی ، البتہ اس حوالہ سے اگر مقامی علماء کی بھی رائے معلوم کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔
كمافي الدر المختار: (ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:
الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى اھ (2/ 137)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوبا وأداء منها: ما هو في المصلى. ومنها ما هو في غيره والفرق أن الأداء لا يصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب اھ(2/ 137)
وفی المبسوط للسرخسي: (قال) فأما الشرائط في غير المصلى لأداء الجمعة فستة المصر والوقت والخطبة والجماعة والسلطان والإذن العام أما المصر فهو شرط عندنا (إلی قوله) ثم في ظاهر الرواية لا تجب الجمعة إلا على من سكن المصر والأرياف المتصلة بالمصر اھ (2/ 23)
وفي بدائع الصنائع : اما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة ، وشرط صحة ادائها عند اصحابنا حتى لا تجب الجمعة الا على اهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه ، وكذا لا يصبح اداء الجمعة الا في المصر وتوابعه فلا تعب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح اداء الجمعة فيها اھ(2/188)
وفي حاشية ابن عابدين: عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ (2/ 137)