کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیانِ عظام مسئلہ" صلوۃ جمعہ فی القرٰی "کے متعلق کہ گاؤں گنانگر ایک موضع ہے جس کے مغرب کی طرف بڑا قصبہ چکسر 14 کلو میٹر دور واقع ہے، اور مشرق کی طرف شہر تھاکوٹ بڑا بازار ہے، 2/1-13، کلو میٹر دور ہے، چکسر تا تھا کوٹ ایک سڑک جاتی ہے جسکا فاصلہ 29 کلو میٹر ہے، گاؤں گنانگر بالکل درمیان میں روڈ کے کنارے واقع ہے، گاؤں گنانگر ضلع پتانگلہ تحصیل امپوری وچکسر ڈاکخانہ چکسر یونین کونسل سرکول میں آتا ہے، پوری یونین کونسل میں صرف ایک گاؤں ہے جوکہ تھاکوٹ کے بالکل قریب ہے، وہ وہاں حکومت والی سوات کے دور سے جمعہ ہوتا چلا آرہا ہے،اس کے علاوہ گنانگر سے تقریباً دس 10کلو میٹر دور ایک گاؤں جٹکل ہے جو دراصل تین گاؤں کا ایک نام ہےاور حدود میں ایک دوسرے کے بہت قریب بھی ہے، وہاں پر چند سال پہلے اک عالم نے شروع کیا تھا ایک سال بعد ایک مشہور عالم دین و شیخ القرآن مولانا ولی اللہ بلگرامی نے بند کرایا، اس کے علاوہ گنانگر کے عقب سار اعلاقہ پہاڑی ہیں آٹھ کلو میٹر دور اونچے پہاڑ پر جہاں 70- 80 گھر ہیں وہاں ایک عالم نے جمعہ شروع کیا تھا لیکن پھر اس نے خود بند کرایا ہے، گاؤں گنانگر کا تفصیلی احوال یہ ہے کہ یہاں ایک ڈسپنسری (BHU)ہے پورے علاقہ کے لئے جو صبح آٹھ8 بجے سے 2 بجے تک کھلا رہتا ہے، پرائمری، مڈل اسکول ہے، کل 107 گھرانے ہیں، گاؤں کے ایک قاری صاحب اور ایک مفتی صاحب نے گھر گھر جاکر نفوس کی تعداد معلوم کی اور گنا ہے جو کہ کل مرد عورتیں بچے سب ملا کر 1610، سولہ سو دس ہیں، گاؤں میں ایک مسجد ہے فی صف 26 نمازی آتے ہیں، نمازیوں کی تعداد کچھ اس طرح ہیں کبھی ایک صف پورا ہوجاتا ہے تو کبھی بچوں سمیت 2/1-1 ، کبھی 2 تک ، البتہ اگست ، ستمبر ، اکتوبر میں بمشکل ایک صف بنتی ہے ، یہاں کے لوگ محنت مزدوری کے لئے سعودیہ ، لاہور اور کراچی جاتے ہیں، رمضان میں اکثر واپس آجاتے ہیں تو رمضان میں، 2/1-2 صفیں بن جاتی ہیں، گاؤں میں کل بارہ دوکانیں ہیں جن میں پانچ متفرق اور سات آمنے سامنے اکٹھے ہیں، تین چار دوکانیں آٹا ، چینی ، چاول ملتی ہیں جبکہ اور دوکانیں چھوٹے اشیاء کی ہیں۔ یہاں کے لوگ اکثر نقد پیسوں سے اشیاء خورد و نوش تھا کوٹ بازار سے لاتے ہیں جبکہ ادھار زیادہ تر یہاں کے دوکانداروں سے لیتے ہیں، پورے گاؤں کا ایک ہی قبرستان ہے، گاؤں میں موچی ، قصاب کی دکان، بیکری، چمڑے بوٹ چپل کی کوئی دکان نہیں ہے ، مردانہ کپڑا کسی دکان سے نہیں ملتا نہ کوئی ہوٹل ہے، نہ ڈاکخانہ، تھانہ بھی نہیں ہےالبتہ عارضی پولیس چوکی موجود ہے، مڈل اسکول میں ڈیوٹی دیتے ہیں، سرکاری محکمہ میں گاؤں کے 9 افراد ملازم ہیں جن میں ایک پرائمری اسکول کا استاد ہےجبکہ ایک کلاس فور ہے، اور تین ڈسپینسری (BHU)میں ملازم ہے اور چار پولنگ اسٹیشن میں لگتا ہے ، اس سال مئی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں کل 427 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے البتہ عورتوں کا پولنگ اسٹیشن نہیں ہوا تھا۔
گاؤں کے اکثر گھر دو کمروں پر مشتمل ہیں بعض گھر چار کمروں پر مشتمل ہیں البتہ ایسے گھر بہت ہی کم ہیں جو پانچ کمروں سے زیادہ ہوں، گاؤں کے گھروں کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ مشرق کی طرف سے شروع الگ تھلک دوتین گھر ہیں پھر بیچ میں کافی فاصلہ ہے،پھر سرکاری ڈسپینسری(BHU) ہے پھر برساتی نالہ ہے پھر شمالا جنوباً کچھ گھر ہیں پھر زیادہ تر گھر ایک ہی لائن قطار پر ہیں، اوپر روڈ ہے، نیچے راستہ ہے شروع گھر سے گاؤں کے آخری گھر تک چھوٹے قدم سے میں چلا ہوں کل 745، قدم کا فاصلہ ہےفی قدم دوفٹ ، میں نے اندازہ لگایا ہے ۔ بہر کیف پھر گاؤں کے زیادہ سے زیادہ گھر اکٹھے ہیں اس کے درمیان بھی ایک برساتی نالہ ہے اور چوڑائی قدم کے حساب سے میں چلا ہوں 140 قدم گاؤں کی چوڑائی ہے۔
گاؤں کے آخر میں مسجد ہے مسجد سے آگے بھی جانب مغرب دوتین گھر ہیں پھر متصل پہاڑ ہے پہاڑ بھی کچھ اس طر ح ہے کہ اوپر بہت بلند اور ایک دامن 2، دو حصے ہوئے ہیں یعنی دو موڑ ، پھر آگے ایک دائمی اور بڑا پانی کا نالہ ہے نالے کے اوپر پُل بنایا ہے نیچے نالہ کی گہرائی 60 فٹ ہے، نالے کے آخری حصہ چوڑائی میں بہت زیادہ وسیع ہے تقریباً 600 قدم سے زیادہ فاصلہ ہے، نالہ وپُل پار دوسرا گاؤں شروع ہوتا ہے دونوں گاؤں کے درمیان کا فاصلہ 800 میٹر سے زائد ہے، جہاں پل ہے اس کے متصل اس دوسرے گاؤں کے 12 گھر ہیں پھر 200 قدم کے فاصلے پر پھر 13 گھر ہیں، پھر 600 قدم کے لگ بھگ کے فاصلے پر پھر 20 - 15 گھر ہیں پھر 400 قدم کے فاصلے پر پھر 12 گھر ہیں اس گاؤں کا یہی ایک نام ہے البتہ دوسرے علاقہ دور اور قریب کے لوگ نام میں تھوڑا فرق ظاہر کرتے ہیں اس گاؤں کو ڈھیری کلے گنانگر کہتے ہیں نصف صدی پہلے یہ دونوں گاؤں بایں طور مشترک تھے کہ ہر سال نیا تقسیم ہوتا تھا اس سال ایک گھرانے کو کھیت مل گئی تو اگلے سال تقسیم میں وہی کھیت کسی اور شخص گھرانے کو ملتی لیکن اب نصف صدی ہوئی ہے، کہ دونوں نے مستقل تقسیم کردی ہیں۔ اب چھوٹے گاؤں کے تین چار گھرانوں کی کھیت اور آبادی میں چند کھنڈرات بڑے گاؤں میں ہیں اور بڑے گاؤں کے صرف دو آدمیوں کا صرف کھیت نالہ پار گاؤں میں ہے، البتہ یہی بات یاد رہے یہاں کی کل زمین کی ملکیت 14 کلو میٹر دور چکسر کے لوگوں کی ہیں یہاں کے لوگوں نے صرف 10/1 حصہ ان سے لیا ہوگا ان دونوں گاؤں کے علاوہ سارا علاقہ ان کی ملکیت ہیں یہاں کے لوگ ان کو سالانہ کرایہ (قلنگ) دیکر کاشت کرتے ہیں، اب دوسرے گاؤں کے اندر ونی احوال اس طرح ہیں کہ اس گاؤں میں پانچ دوکانیں ہیں دو بڑی اشیاء کی ہیں، دوکانیں متفرق ہیں پرائمری لڑکیوں کے لئے اسکول ہے ایک مڈل پبلک اسکول ہے تین چار میڈیکل اسٹور ہیں جن میں ایک بڑا اور تین چھوٹی ہیں ان کا الگ قبرستان ہے تھانہ ڈاکخانہ ، چوکی ، ہسپتال ہوٹل وغیرہ کوئی نہیں ہے ، دو مسجدیں ہیں ایک جگہ 12 گھر ہیں وہ لوگ اپنے لئے مسجد بنا رہے ہیں چھت باقی ہے اس گاؤں میں کل نفوس /900 مر د وخواتین بچے تک ہونگے یہ اندازتاً ہے اس گاؤں کا ایک عالم جو کہ 30 سال سے کراچی میں مقیم ہیں۔ 15 سالوں سے نابینا ہوچکا ہےابھی عارضی طور پر گاؤں آیا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ اس دفعہ میں جمعہ شروع کروں گا چند دن پہلے بلا کسی مشورہ ایک اشتہار چھاپا ہے کہ فلاں تاریخ کو ڈھیری گلے گانگر میں جمعہ کا افتتاح ہے، یہ مولانا صاحب حنبلی مذہب کی طرف مائل ہے پہلے سعودیہ میں رہا ہے یہاں کے علماء میں ابن قیم کے نام سے مشہور ہے۔
بہر کیف اشتہار چھاپنے کے بعد اس چھوٹے گاؤں کے ایک عالم نے اور قریب قریب علماء ومفتیان کو بلا کر ایک فقہی مجلس قائم کیا اور اس نابینا عالم کو بلایا تو اس مجلس میں مختلف باتیں ہوئی اکثر مفتیان وعلماء عدم جواز کے قائل تھے البتہ وہ مولوی صاحب بضد تھے کہ حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ ’’جمعوا حیث ما کنتم‘‘ جمعہ درست ہے لیکن اور علماء کرام اور مفتیان نے کہا کہ اس مسئلہ میں اتنا جلدی نہ کی جائے خوب تحقیق کرکے ایک تفصیلی احوال لکھ کر بڑے مدارس کو بھیج دیا جائے وہ جو فیصلہ صادر فرمائیں گے اس پر عمل کریں گے، لیکن اس مولوی صاحب کو ذرا جلدی ہے کہہ رہا ہے کہ میں پھر کراچی جا رہا ہوں میں خود بڑے گاؤں میں رہتا ہوں ہمارے گاؤں کے پیش امام عدم جواز کے قائل ہیں اور ایک کلو میٹر دور ایک گاؤں ماسیر ہے اس میں ایک مفتی صاحب بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں وہ کہتے ہیں کہ دونوں گاؤں الگ الگ ہوں تو بالکل جمعہ درست نہیں ہے اور اگر ایک گاؤں مان لیا جائے تو پھر بھی درست نہیں ہے کم از کم 10-15 سال مزید انتظار کرنا پڑے گا تب ہوسکتا ہے جائز ہوجائے ۔
اسی طرح اس گاؤں کا ایک بڑا عالم دین اور شیخ الحدیث اور موجودہ ضلع شانگلہ کا سرکاری خطیب بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ جمعہ میں شک ہے اور ظہر یقینی ہے لہذا یقین پر عمل کریں۔ ہمارے گاؤں کے ایک اور مفتی صاحب نے بنوری ٹاؤن سے عدم جواز کا فتوی لیا ہے لیکن ہم نے یعنی ہمارے پیش امام اور میں نے ایک تفصیلی جائزہ لیکر سوال بنایا ہے تاکہ پھر اس میں کوئی چیز مخفی نہ ہو توا ب سوال یہ ہے کہ اس موضع میں نمازِ جمعہ درست ہے یا نہیں؟
دونوں گاؤں ایک شمار ہوں گے یا الگ الگ جبکہ دونوں کے درمیان فاصلہ 900، فٹ اور بیچ میں ایک دائمی نالہ پانی کا موجود ہے ،دونوں گاؤں کے احوال تفصیلی ہم نے لکھ دی ہیں کیوں کہ یہاں کے لوگوں میں تشویش ہے کہ اگر جمعہ جائز نہ ہوتو ظہر کا کیا جائے گا یہاں بلکہ ہمارے پورے یونین کونسل کے لوگ باشعور ہیں حنفی المذہب اور دین سے باخبر اور تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں عقائد کے لحاظ سے کوئی بریلوی شیعہ بدعتی نہیں ہے البتہ اس چھوٹے گاؤں میں ایک شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عثمانی گروپ سے تعلق رکھتا ہے، مسجد میں نماز نہیں پڑھتا ہے اس کے علاوہ سب لوگ صحیح عقائد دیوبند سے وابستہ ہیں۔
واضح ہو کہ گاؤں میں جمعہ پڑھنا صحیح نہیں،قصبات میں صحیح ہے اور کسی جگہ کے گاؤں یا قصبہ اور شہر ہونے کی بنیاد عرف پر ہے ، قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی چار ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو جس میں چالیس، پچاس دکانیں متصل ہوں اور بازار روزانہ لگتا ہو او اس بازار میں ضروریات روز مرہ کی تمام اشیاء ملتی ہوں مثلاً جوتے کی دوکان بھی ہو، کپڑے کی بھی، عطار کی بھی ہو، بزار کی بھی، غلّے کی بھی ہو اور دودھ گھی بھی، اور وہاں ڈاکٹر حکیم بھی ہوں وغیرہ، اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہواور پولیس تھانہ یا چوکی بھی، اور اس میں مختلف محلّے مختلف ناموں سے موسوم ہوں، پس جس بستی میں یہ شرائط موجود ہوں وہاں جمعہ صحیح ہوگا ورنہ صحیح نہ ہوگا، جبکہ سوال میں مذکورہ تفصیل کی روشنی میں "گاؤں گنانگر" پر قصبہ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ایک مستقل چھوٹا گاؤں ہے اس لئے اس میں نمازِ جمعہ کا قیام جائز نہیں، اس سے احتراز لازم ہے ورنہ اس کی وجہ سے ظہر کی فرض نماز کا ترک اور نوافل کی جماعت کا اہتمام لازم آئے گا جو شرعاً جائز نہیں۔
كما فی الھدایة: ولا تصح الجمعة إلا فی مصر جامع او فی مصلی المصر ولا تجوز فی القریٰ لقوله علیه السلام لا جعمة ولا تشریق ولا فطر ولا اضحیٰ الا فی مصر جامع، والمصر الجامع كل موضع له امیر وقاض ینفذ الاحكام ولا یقیم الحدود الخ (ج۱ ص۱۶۸)
وفی البدائع و:- اما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة ادائھا عندنا حتی لا تجب الجمعة الا علی أھل المصر ومن كان ساكنا فی توابعه وكذا لا تصح داء الجمعة الا فی المصر ومن كان ساكنا فی توابعه وكذا لا تصح اداء الجمعة الا فی المصر وتوابعه (الیٰ قوله) واما المصر الجامع فقد اختلف الاقاویل فی تحدیده ذكر الكرخی أن المصر الجامع ماأقیمت فیه الحدود ونفذت فیه الاحكام، وعن ابی یوسف روایات ذكر فی الاملاء كل مصر فیه منبر و قاض ینفذ الاحكام ویقیم الحدود فھو مصر جامع تجب علی أھله الجمعة وفی روایة قال اذاجتمع فی قریة من لایسعھم مسجد واحد نبی لھم الاما جامعا ونصب لھم من یصلی بھم الجمعة وفی روایة لو كان فی القریة عشرة آلاف أو اكثر أمرھم باقامة الجمعة فیھا وقال بعض أصحابنا المصر الجامع مایتعیش فیه كل محترف بحرفته من سنة الی سنة من غیر ان یحتاج إلی الانتقال الی حرفة أخری وقال سفیان ثوریؒ المصر الجامع ما یعده الناس مصرا عندالامصار المطلقة وروی عن أبی حنیفةؒ أنه بلدة كبیرة فیھا سكك وأسواق ولھا رساتیق وفیھا وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحثمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه فی الحوادث وھو الاصح الخ (ج۱ص۲۶۰) والله اعلم بالصواب