کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو رہا تھا، اس دوران میں نے بیوی کو غصہ میں تین بار یہ جملہ"میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی "کہہ دیا، اب رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی کو مذکور جملہ" میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی " کہہ دیا تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے، اب رجوع نہیں ہوسکتا اور بغیرحلالۂ شرعیہ کے دونوں کا آپس میں باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا، لہذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں اور میاں بیوی والے تعلقات ہرگز قائم نہ کریں، ورنہ دونوں سخت گناہ گار ہوں گے، جبکہ عورت ایامِ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے ۔
اور حلالۂ شرعیہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اور عدتِ طلاق گزارنے کے بعد بغیر کسی شرط کے کسی دوسر ے مسلمان شخص سے اپنا عقد نکاح کرے ،چنانچہ اگر وہ دوسرا شخص بھی اس سے ایک مرتبہ ہمبستری (جوکہ حلالۂ شرعیہ کےتحقق لئے ضروری ہے )کے فوراً بعد یا ا زدواجی زندگی کے کچھ عرصہ بعد طلاق دیدے یا بیوی سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے،بہر صورت اسکی عدت گزرنے کے بعد وہ پہلے شوہر کے عقد نکاح میں آنا چاہے اور پہلا شوہر بھی اسے رکھنے پر رضامند ہو تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ عقد نکاح کرکے باہم میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ،تاہم حلالہ اس شرط کے ساتھ کرنا کہ زوجِ ثانی نکاح کے بعد طلاق دے، تاکہ زوجِ اول کیلئے عورت دوبارہ حلال ہوجائے، مکروہِ تحریمی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے عمل کرنے والوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے،البتہ بغیر شرط کے بلاشبہ جائز اور درست ہے ۔
قال اللہ تعالیٰ: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَاتَحِلَّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرۃ: 230)۔
وفی احکام القرآن للجصاص: تحت ھذہ الآیة : فالكتاب و السنة و إجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا و إن كانت معصية (2/85)۔
و فی الھندیة : و ان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الامة لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا و یدخل بھا ثم یطلقھا او یموت عنھا اھ (1/473)۔