میرے پاس کچھ رقم ہے جو 2022 میں پلاٹ بیچنے پر حاصل ہوئی تھی ، اس سے قبل یہ رقم ایک سودی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رکھی گئی تھی ، جس کی رقم 2023 میں 80 لاکھ روپے تھی ، پھر نومبر 2023 کو اپنا بیلنس میزان اسلامک میچول فنڈ میں منتقل کردیا ، اور اب اس پر 85000 روپے منافع ماہانہ لیتا ہوں ، مذکورہ رقم میرے ماہانہ گھر کے اخراجات اور ادویات وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے ، 80 لاکھ ابھی بھی اسلامک میچول فنڈ میں ہے ، براہ کرم ! میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے زکوٰۃ کتنی ادا کرنی چاہیئے ؟
سائل کا کسی سودی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھواکر اس پر سود حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں تھا جس پر اسے بصدقِ دل توبہ و استغفار اور سود کی مد میں حاصل شدہ رقم کسی مستحقِ زکوٰۃ کو بلا نیتِ ثواب صدقہ کرنا لازم ہے ، جبکہ مستند مفتیان کرام کی زیرنگرانی اپنے معاملات سر انجام دینے والے اسلامک میچول فنڈ میں رکھی گئی اصل رقم اور زکوٰۃ کی تاریخ میں اس پر حاصل ہونے والے منافع میں سے جتنی رقم موجود ہو اس ساری رقم پر دیگر اموالِ زکوٰۃ کے ساتھ سائل کے ذمہ ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دینا لازم ہوگا۔
کما فی رد المحتار : والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم ، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له و يتصدق به بنية صاحبه الخ۔ ( کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، ج۵ ، ص۹۹ ، ط۔ایم سعید )۔
أما الأثمان المطلقة و هي الذهب و الفضة أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له الصنفان جميعا ، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم ( إلی قولہ ) وأما صفة هذا النصاب فنقول : لا يعتبر في هذا النصاب صفة زائدة على كونه فضة فتجب الزكاة فيها سواءكانت دراهم مضروبة ، أو نقرة ، أو تبرا ، أو حليا مصوغا ، أو حلية سيف ، أو منطقة أو لجام أو سرج أو الكواكب في المصاحف والأواني ، وغيرها إذا كانت تخلص عند الإذابة إذا بلغت مائتي درهم ، وسواء كان يمسكها للتجارة ، أو للنفقة ، أو للتجمل ، أو لم ينو شيئا. الخ۔ ( کتاب الزکوٰۃ ، فصل الاثمان المطلقۃ ، ج۲ ، ص۱۷ ، ط۔ دارالکتب العلمیۃ )۔