السلام علیکم!
میرا طلاق سے متعلق ایک سوال ہے، میں نے غصے میں اپنی بیوی سے نیچے دیے گئےالفاظ کہہ دیے ، اسے طلاق دینے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا، اس وقت طلاق کی کوئی بحث بھی نہیں تھی، اور نہ ہی اس نے طلاق کا مطالبہ کیا، وہ پر سکون تھی، لیکن میں اس وقت غصے میں تھا، میرا مقصد صرف اسے ڈرانا تھا، اور میں نے پوری طرح سوچا کہ ان الفاظ سے طلاق نہیں ہوگی، اسی لئے میں نے لفظ "آزاد , میں اپنے ہوش حواس میں تمہیں آزاد کرتاہوں" استعمال کیے ہیں، اور اس بات کا یقین نہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ مذکورہ بالاجملہ دہرایا ہے یا صرف یہی ایک مرتبہ"آزاد کرتاہوں"کہا ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، جبکہ طلاق کے لئے بالکل بھی ارادہ نہیں تھا؟شکریہ۔
واضح ہوکہ ہمارے عرف میں لفظ"آزاد"طلاق کے معنی میں صریح ہے، اور اس سے بغیر نیت و ارادہ کے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا سائل نے جب اپنی مدخول بہا بیوی کو مذکور الفاظ"میں اپنے ہوش وحواس میں تمہیں آزاد کرتا ہوں" یا "آزاد کرتا ہوں"دوبار کہہ دیے ، تو اس سے سائل کی بیوی پر دوطلاق رجعی واقع ہوچکی ہیں، چنانچہ اگر سائل دوران عدت زبانی طور پر رجوع کرلے یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے، تو یہ نکاح حسب سابق برقرار رہے گا، بصورتِ دیگر شوہر کے رجوع نہ کرنے کی صورت میں ایام عدت گزر جانے پر نکاح ختم ہوجائے گا، اور عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،تاہم گر دوبارہ ایک ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا ہو، تو باہمی رضامندی سے شرعی گواہان کی موجود گی میں نئے حق مہر کے تقرر کےساتھ ایجاب و قبول کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، بہر دو صورت آئندہ کیلئے شوہر کو فقط ایک (1) طلاق کا اختیار ہوگا، اس لئے طلاق کے معاملہ میں خوب احتیاط لازم ہے۔
کما فی ردالمحتار: تحت (قولہ: فیقع بلانیۃ للعرف) ای فیکون صریحا لاکنایۃ بدلیل عدم اشتراط النیۃ وان کان الواقع فی لفظ الحرام البائن لان الصریح قدیقع بہ البائن کمامر الخ (ج3 صـ252 کتاب الطلاق ط: سعید)۔
وفی الھندیۃ: والاصل الذی علیہ الفتوی فی زماننا ھذا فی الطلاق بالفارسیۃ انہ اذاکان فیھا لفظ لایستعمل الا فی الطلاق فذلک اللفظ صریح یقع بہ الطلاق من غیر نیۃ اذا اضیف الی المرأۃ الخ (ج1 صـ379 کتاب الطلاق الفصل السابع عشر فی الطلاق ط: ماجدیۃ)۔
وفیھا ایضاً: واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقۃ رجعیۃ او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا رضیت بذلک او لم ترض کذا فی الھدایۃ الخ (ج1صـ470 کتاب الطلاق ط: ماجدیۃ)۔
وفیھا ایضاً: ان یراجعھا بالقول ویشھد علی رجعتھا شاھدین ویعلمھا بذلک فاذا راجعھا بالقول نحو ان یقول لھا رجعتک اور راجعت امراتی ولم یشھد علی ذلک او اشھد ولم یعلمھا بذلک فھو بدعی مخالف للسنۃ والرجعۃ صحیحۃ وان یراجعھا بالفعل مثل ان یطأھا او یقبلھا بشھوۃ او ینظر الی فرجھا بشھوۃ فانہ یصیر مراجعا عندنا الخ (ج1 صـ467 کتاب الطلاق ط: ماجدیۃ)۔