السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! محترم جناب مولانا صاحب! گزارش عرض ہے کہ زید اور عائشہ دونوں میاں بیوی میں تکرار ہواا ور تکرار میں غصے میں زید نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے مذکورہ الفاظ ادا کردیئے " میں تجھے جواب دیتا ہوں، جواب دیتا ہوں،جواب دیتاہوں" مہربانی فرما کر جواب مرحمت فرمائیں کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہوگئی ہو تو اس صورت میں نکاح اور مہر لازم ہوگا یا پھر عدت او ر حلالہ دونوں ہوں گے ؟ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں ۔
واضح ہو کہ "جواب دیتا ہوں" کا جملہ کنایاتِ طلاق میں سے ہے، جس سے وقوعِ طلاق کیلیے نیت کا ہونا ضروری ہے، چنانچہ جب سائل (مسمی زید ) نے طلاق کی نیت سے مذکور جملہ " میں تمہیں جواب دیتا ہوں " تین مرتبہ کہا تو اس کے پہلے جملے سے سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو کر دونوں کانکاح ختم ہو چکا تھا ، اس لیے بقیہ دونوں جملوں سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، لہذا دونوں پر لازم ہےکہ بغیر تجدیدِ نکاح ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنے سے اجتناب کریں، البتہ اگر ساتھ رہنا ہو تو دورانِ عدت یا عدت گزرنے کے بعد شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے حقِ مہر کے تقرر کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے کے بعد ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، جبکہ عدت گزرنے پر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہو گی۔
کما فی الدر المختار: (لا) یلحق البائن (بالبائن) إذا أمکن جعلہ إخبارا عن الأول: کأنت بائن بائن أو أبنتک بتطلیقۃ فلا یقع لأنہ إخبار فلا ضرورۃ فی جعلہ إنشاء بخلاف أبنتک بأخری أو انت طالق بائن، أو قال نویت البینونۃ الکبری لتعذر جملہ علی الإخبار فیجعل إنشاء الخ
وفی رد المحتار: تحت (قولہ لا یلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذی لا یلحق ھو ماکان بلفظ الکنایۃ لأنہ ھو الذی لیس ظاھرا فی إنشاء الطلاق کذا فی الفتح، وقید بقولہ الذی لا یلحق إشارۃ إلی أن البائن الموقوع أولا أعم من کونہ بلفظ الکنایۃ أو بلفظ الصریح المفیدۃ للبینونۃ کالطلاق علی مال، وحینئذ فیکون المراد والصریح فی الجملۃ الثانیۃ أعنی قولھم والبائن یلحق الصریح لا البائن ھو الصریح الرجعی فقط دون الصریح البائن الخ (کتاب الطلاق ج 3 صـ 310- 308 ط: سعید)
وفیہ ایضاً: تحت: (قولہ وفی الکافی الخ) حاصل عبارۃ الکافی (إلی قولہ) (تنبیہ) فی القنیۃ: جدد للحلال نکاحا بمھر یلزم إن جددہ لأجل الزیادۃ لا احتیاطا اھ أی لو جددہ لأجل الاحتیاط لا تلزمہ بلا نزاع کما فی البزازیۃ، و ینبغی أن یحمل علی ماإذا صدقتہ الزوجۃ أو أشھد، وإلا فلا یصدق فی إرادتہ الاحتیاط کما مر عن الجمھور الخ (کتاب النکاح ج3 ص113-112 ط: سعید)