السلام علیکم!
میرا نام ثوبیہ ہے، میری عمر 24 سال ہے، آج سے بارہ سال پہلے میرا نکاح کیا گیا تھا، اور ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی، اور اب میں جوان ہوگئی ہوں، اور اس شخص سے خلع چاہتی ہوں، اس شخص کی شادی کہیں اور ہوگئی ہے، اور اولاد بھی ہے، میں اس سے ہر گز شادی نہیں کرنا چاہتی، میرے والدین میری کہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ لڑکا مجھے طلاق نہیں دیتا اور کہتاہے زندگی بھر ایسے ہی بیٹھی رہو، براہ مہربانی خلع کیلئے رہنمائی فرمائیں اور اس مسئلہ کا اسلامی طریقہ بتائیں؟
سائلہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان کی رخصتی میں ابھی تک تاخیر کیوں ہوئی؟ اور وہ رخصتی پر آمادہ کیوں نہیں؟ تاکہ اس کے مطابق جواب دیا جاتا، تاہم اگر اب وہ رخصتی کے بجائے عدالتی خلع کے ذریعہ شوہر سے علیحدگی چاہتی ہو، تو واضح ہوکہ خلع بھی دیگر عقودِ مالیہ کی طرح ایک عقد ہے، جس میں جانبین کی باہمی رضامندی شرعاً ضروری ہے، لہذا اگر سائلہ نکاح صحیح کے بعد رخصتی سے قبل شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے پر رضامند نہ ہو، اور نہ ہی سائلہ کے والدین سائلہ کی مذکور شوہر کے ہاں رخصتی کرنا چاہتے ہوں، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر کو طلاق یا خلع پر راضی کرے، جس میں جانبین کے خاندان یا علاقے کے بااثر افراد کو جانبین سے شامل کرکے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، ورنہ عدالتی یکطرفہ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بھی یہ نکاح ختم نہ ہوگا، اور نہ ہی اس کی بنیاد پر سائلہ دوسری جگہ نکاح کرسکے گی، لہذا عدالت کے بجائے فریقین کوخود باہمی رضامندی سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیئے۔
کما فی ردالمحتار: تحت (قولہ: واما رکنہ فھو کما فی البدائع: اذا کان بعوض الایجاب والقبول لانہ عقد علی الطلاق بعوض فلاتقع الفرقۃ ولایستحق العوض بدون القبول الخ (ج3 صـ441 کتاب الطلاق ط: سعید)۔
وفی البحر: الخلع معاوضۃ فلایتم برکن واحد الخ (ج4 صـ72 کتاب الطلاق ط: ماجدیہ)۔