السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ ناصر نام کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاقِ بائن دی، پھر اس نے چار مہینے کے بعد اپنی سابقہ بیوی سے نکاحِ جدید کیا، اور کچھ دن بعد پھر اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ "میں نے تجھے دو طلاق دی" تو اب میرا سوال یہ ہے کہ ناصر نے جو پہلے ایک طلاقِ بائن دی تھی، وہ مل کر اب تین طلاقیں ہونگی یا ابھی بھی وہ ایک طلاق کا مالک رہے گا؟ دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں گے تو بڑی مہربانی ہوگی۔والسلام
سوال میں ذکر کردہ بیان کے مطابق مذکور شخص مسمی ناصر کی بیوی نے ایک طلاق بائن کے بعد اگر عدت گزار کر کسی دوسرےشخص سے نکاح نہ کیا ہو،بلکہ مسمی ناصر کے ساتھ ہی تجدید نکاح کرلیا تھا،تو ایسی صورت میں مسمی ناصر کو آئندہ کیلئے فقط دو طلاقوں کا اختیار حاصل تھا، چنانچہ اب اگر مسمی ناصر نےاپنی بیوی کو دو طلاقیں دیدی ہوں تو اس سے اسکی بیوی پر بقیہ دو طلاقیں واقع ہوکر مجموعی طور پر تین طلاقوں کے ذریعے حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے،اب رجوع نہیں ہوسکتا،اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا، لہذا میاں وبیوی پر لازم ہےکہ وہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں،اور میاں بیوی والے تعلقات ہر گز قائم نہ کریں، ورنہ دونوں سخت گناہ گار ہونگے،نیز عورت ایام عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے۔
کما قال اللہ تعالی: فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔الآیۃ(سورۃ البقرۃ/130)۔
وفی الدرالمحتار: (ان لم یطلق بائنا) فان ابانھا فلا الخ(ج3 صـ400 کتاب الطلاق باب الرجعۃ ط: سعید)۔