میری پھوپھی اور ساس کا اپنا گھر ہے، دو شادی شدہ بیٹیاں اور ایک غیر شادی شدہ بیٹی اور ایک بیٹا، جو زیر تعلیم ہے، اس کے پاس تقریباً 40 گرام کے زیورات ہیں جو اس نے اپنے بیٹے کی شادی کے لئے رکھے ہیں۔ اس کا شوہر وفات پاچکا ہے اور وہ اپنے شوہر کی پنشن پر گزارہ کر رہی ہیں۔ اس پر تقریباً 3 لاکھ کا قرض واجب الادا ہے۔ کیا میں اسے زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟
سائل کی پھوپھی کے پاس مذکور چالیس گرام سونے کے ساتھ ساتھ روز مرہ اخراجات کے علاوہ کوئی کیش رقم موجود ہو چاہے معمولی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو ، تو مذکور سونے کی مارکیٹ ویلیو اور موجود نقدی کی مجموعی مالیت سے تین لاکھ کا قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر بچ جاتی ہو ، تو ایسی صورت میں سائل کی پھوپھی مستحق نہیں ، بلکہ صاحبِ نصاب ہے ، لہٰذا سائل کے لئے اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست نہ ہوگا ، تاہم سائل کی پھوپھی کے پاس اگر مذکور سونے کے علاوہ ضرورت سے زائد رقم کچھ بھی نہ ہو ، یا نقدی تو ہو مگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد سونے و نقدی کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر نہ ہو ، تو سائل کے لئے اپنی مذکور پھوپھی کے ساتھ زکوٰۃ کی مد میں معاونت کرنا بلاشبہ جائز اور درست ہوگا ۔
کما فی الدر المختار : باب المصرف أي مصرف الزكاة ( إلی قولہ ) (هو فقير، وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة. الخ۔ (کتاب الزکوۃ ، باب المصرف ، ج۲ ، ص۳۳۹ ، ط۔سعید )۔
و فی بدائع الصنائع : ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات الخ۔ ( کتاب الزکوۃ ، ج۲ ، ص۵۰ ، ط۔سعید )۔
یہ کہدینا کہ ’’میں اپنی تنخواہ میں سے سات فیصد اللہ کے راستے میں دیا کروں گا ‘‘
یونیکوڈ مصارف زکوۃ و صدقات 0