کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارا مکان جو کہ چار کمروں پر مشتمل ہے اور جس کی حاضر وقت قیمت 60 لاکھ روپے ہے ، جس میں سے ایک کمرہ جس کی مالیت ۱۵ لاکھ روپے بنتی ہے ، میری والدہ صاحبہ نے میری زوجہ کو بطور حق مہر دیا تھا جو کہ ہم نے ادا نہیں کیا تھا ، واضح رہے کہ یہ حق مہر میرے والد صاحب کے وفات کے بعد دیا گیا ہے اور موجودہ وقت میں میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے ، باقی تین کمروں میں ہم رہائش پذیر ہیں، جو کہ مشترکہ ہیں ، اسے پیشتر جب میرے والدین حیات تھے اور میرے بڑے بھائی کی شادی تھی تو میرے والدین نے ان کے لئے بطور حق مہر 7 تو لہ سونا دیا تھا ، ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں ، تو کیا باقی تین کمروں میں میں حقدار ہوں گا یا نہیں؟ براہِ مہربانی شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ مسئلہ کی تقسیم کی صورت کیا ہوگی ؟ شکریہ ۔
نوٹ : بذریعہ فون معلوم ہوا کہ سائل کی شادی والد مرحوم کے انتقال کے بعد ہوئی تھی ،اور شادی کے وقت تمام ورثاء والدہ کےاس گفٹ پر راضی تھے ۔
مفتی غیب نہیں جانتا ،وہ سوال کے مطابق جواب دینے کا پابند ہوتا ہے ، جبکہ سوال کے سچ و جھوٹ پر مبنی ہونے کی ذمہ داری سائل پر عائد ہوتی ہے ،اس مختصر تمہید کے بعد واضح ہو کہ سائل کے والد مرحوم کے ترکہ میں چھوڑے گئے مکان میں سے والدہ نے اگر واقعۃً تمام ورثاء ( بشرطیکہ تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں) کی اجازت اور رضامندی سے ایک کمرہ سائل کی بیوی کو بطور حق مہر ملکیتاً دیا ہو، اس طور پر کہ یہ کمرہ دیتے وقت ورثاء کی جانب سے اس کمرہ کو سائل کے حق میراث کا عوض قرار دینے کی صراحت نہ کی ہو،تو شرعاً یہ ورثا ء کی طرف سے تبرع و احسان شمار ہوگا ،جس کی وجہ سے سائل کا حصہ میراث ترکہ سے ساقط نہ ہوگا، اور نہ ہی اسے ترکہ میں سے محروم کرنا شرعا ًدرست ہوگا ،جس سے دوسرے ورثاء کو احتراز چاہیئے، تاہم اگر حقیقی صورت حال کچھ اور ہو، تو فریقین قریبی دارالافتاء سے رجوع کر کے حکم شرعی معلوم کر سکتے ہیں ۔
كما و في فيض الباري شرح صحيح البخاري : ففي «القنية»: المتبرع لا يرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لا يمشي في التبرعات، بخلاف الهبة. انتهى (باب هبة الواحد للجماعة،ج 4، ص 58، ط : دار الكتب العلمية، بيروت)-
و في العقود الدرية في تنقيد الفتاوى الحامدية : وفي العمادية من أحكام السفل والعلو المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ. (كتاب المداينات، ج 2، ص226، ط : دار المعرفة)-
اس کے بعد واضح ہو کہ سائل کے مرحومین والدین کا ترکہ اس کے موجود ورثاء میں اصول میراث کے مطابق اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحومین نے بوقت انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ، سونا ، چاندی ، زیورات ، نقد رقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑاگھریلو سازو سامان اپنی ملکیت میں چھوڑا ہے ، وہ سب مرحومین کا ترکہ ہے ، جس میں سے سب سے پہلے مرحومین کے کفن دفن کے متوسط مصارف ادا کریں ، اس کے بعددیکھیں کہ اگر ان کے ذمہ کچھ قرض واجب الاداء ہو تو وہ ادا کریں ، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی (1/3)کی حد تک اس پر عمل کریں ، اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کل آٹھ (8) حصے بنائے جائیں ، جن میں سے مرحومین کےہر بیٹے کو دو 2)) حصے ، جبکہ ہربیٹی کو ایک (1) حصہ دیا جائے ، جیسا کہ ذیل کے نقشہ سے بھی واضح ہو رہا ہے ، مزید سہولت کے لئے فیصدی حصے بھی لکھ دئیے گئے ہیں، ملاحظہ ہو !
مسئلة : 8مرحومین : والدین ميـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت
بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی
2 2 1 1 1 1
25% 25% 12.5% 12.5% 12.5% 12.5%
ترکہ کی تقسیم(مرحومہ کے بالواسطہ و بلا واسطہ ورثاء =1 حقیقی بیٹا 1 سوتیلا بیٹا 2 حقیقی بیٹیاں 2 دو سوتیلی بیٹیاں)
یونیکوڈ احکام وراثت 0