کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ شرع ِمتین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کسی سرکاری ملازمت کیلئے درخواست دیتا ہے، اور جس کام کیلئے درخواست دی ہے ،اس میں اچھی اہلیت رکھتا ہو، اگر یہ ملازمت حاصل کرنے کیلئے رشوت دی اور نوکری مل گئی تو کیا شخصِ مذکور کی نوکری کی آمدنی حرام ہوگی یا حلال ؟.
۲: غیر اللہ کے نام پر صدقہ وخیرات ،نذر ونیاز کرنا از روئے شریعت کیسا ہے ؟ عام طور عورتیں گھروں میں مخصوص ایام میں حلوے ، چاول، مسور کی دال ،کونڈے وغیرہ کرتی ہیں، مگر ان کو مذکور چیز کی تعریف و حقیقت معلوم نہیں ہوتی ،زبانی کہہ دیتی ہیں کہ فلاں بزرگ کے نام آج یہ فلاں صدقہ کرنا ہے، آیا ایسے کہنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟
1: درخواست گزار اگر واقعۃً اس ملازمت کا اہل اور مستحق ہو ،اور متعلقہ ذمہ داری نبھانا بھی بخوبی جانتا ہو، مگر رشوت دیے بغیر کام نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس کام کو چھوڑ دے ،اور کوئی دوسرا مشغلہ اختیار کرے ، اور اگر وہ بہ مجبوری رشوت دے کر اپنا تقرر کروا لے ،تو اس کی بھی گنجائش ہے ،اور اس صورت میں حاصل ہونے والی تنخواہ کا استعمال میں لانا بھی جائز اور درست ہے، مگر رشوت لینے والے کیلئے بہر حال اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا ناجائز اور حرام ہے ، جس سے احتر از لازم ہے۔
2:غیر اللہ کے نام پر صدقہ و خیرات کرنا بلا شبہ ناجائز اور فعلِ حرام ہے ،اور کسی فعل کی حرمت ثابت ہونے کیلئے باضابطہ اس کی لغوی یا اصطلاحی تعریف کا جاننا شرعاً لازم اور ضروری نہیں ،نیز ان امور کا غیر اللہ کے نام پر کرنے سے مکمل احتراز لازم ہے ۔ جبکہ بلا دلیلِ شرعی مخصوص ایام میں صدقہ و خیرات کو لازم سمجھنا اور نہ کرنے والے کو مستوجبِ ملامت سمجھنا یا رجب وغیرہ کے کونڈے بنانا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، اس طرح کے امور سے بھی احتراز لازم ہے ۔
البتہ من گھڑت ایامِ مخصوصہ سے بچتے ہوئے محض حصول ِتقرب الی اللہ یا خیر وبرکت کیلئے صدقہ و خیرات کرنا بلا شبہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
ففي حاشية ابن عابدين: الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط (5/ 362)۔
في الدر المختار: واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك اھ (2/ 439)۔
وفي حاشية ابن عابدين: (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك. ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار اھ(2/ 439)۔
ائمہ مساجد کا میڈیا ذرائع کی بنیاد پر حکومت کے خلاف بیان دینا غیبت ہے یا تہمت؟/سرکاری ملازم کی چھٹیوں کے احکام
یونیکوڈ ملازمت 0محلہ والوں کا امام صاحب کے ساتھ کنٹریکٹ کرنا اور معاہدہ مکمل ہونے کے بعد اس کو بلا عذر نکالنے کا حکم
یونیکوڈ ملازمت 0تنخواہ کی رقم سے کچھ پیسے کاٹنا اور ملازمت ختم ہونے کے بعد پینشن کے طور پر لے کر استعمال کرنا
یونیکوڈ ملازمت 0