کیا فرماتے ہیں علماء ِکرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلہ کی مسجد میں امام و خطیب نے تقریباً 35 سال امامت و خطابت کی ،مؤرخہ 25 اپریل 2003 کورضاءِ الہی سے اُن کا انتقال ہوا ،(انا للہ وانا الیہ رجعون ) مولانا مرحوم و مغفور نے اپنے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 3 جوان بیٹیاں اور 2 بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں ،مولانا مرحوم کا ایسا کوئی بیٹا نہیں، جو اُن کا جانشین بن سکے، بڑا بیٹا ذہنی طور پر کچھ مفلوج ہے،اور چھوٹے بیٹے میں اتنی سمجھ نہیں کہ وہ گھر والوں کیلئے کچھ کر سکے، مولانا مرحوم کے پسماندگان جس پلاٹ میں رہ رہے ہیں، وہ مذکور مسجد کا پلاٹ ہے ،اس پلاٹ کے اوپر نیچے 2 منزلیں ہیں،نئے امام و خطیب کا تقرر کرکے پلاٹ کے اوپر کی منزل میں الگ راستے سے رکھنا ہے، کیا مولانا مرحوم کے پسماندگان کو پلاٹ کے نیچے کی منزل میں رہائش کی سہولت دے سکتے ہیں شرعا ً؟ اراکینِ کمیٹی کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مولانا مرحوم کے پسماندگان کو رہائش کی سہولت دی جائے ۔ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عند الله جزا ئے خیر کے مستحق بنیں۔
صورتِ مسئولہ سے متعلق سائل کی زبانی یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ وہ مرحوم امام موصوف کی بیٹی کا عقد نکاح ایسے عالم ِدین سے کروانا چاہتے ہیں ،جو آئندہ اس مسجد کی امامت کی ذمہ داری بھی سنبھالے گا،اور خود مرحوم نے اس کے ساتھ اپنی زندگی میں ہی رشتہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا، اور یہ نیا امام پہلے امام کے متعلقین میں سے بھی ہے، اگر یہ بات واقعۃً درست ہے کہ آنے والے نئے امام کا رشتہ بھی امام مرحوم کی بیٹی سے ہونا طے پایا ہے ،تو اس صورت میں امام اور اس کے متعلقین کی رہائش کا انتظام اہلِ محلہ یا مسجد کمیٹی کے لئے کرنا بلا شبہ جائز اور درست ہے ،اور اگر یہ صورت نہ ہو تب بھی متعلقہ کمیٹی کا مذکور ہمدردی والا جذبہ قابلِ تعریف و تقلید ہے، جس کی بہترین صورت یہ اختیار کی جا سکتی ہے کہ محلہ کے اہل ِخیر ان کو مستقل مکان خرید کر مالکانہ قبضہ کے ساتھ دیں ،اور یہ نہ ہو تو کم از کم چند اہلِ خیر مل کر مرحوم امام صاحب موصوف کی اولاد کے مکان کا کرایہ اپنے ذمہ لے لیں ،اور وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری بھی کرتے رہیں ۔
ففي الفتاوى الهندية:ولا تجوز إعارة الوقف والإسكان فيه كذا في محيط السرخسي متولي الوقف إذا أسكن رجلا بغير أجرة ذكر هلال رحمه الله تعالى أنه لا شيء على الساكن وعامة المتأخرين من المشايخ رحمهم الله تعالى أن عليه أجر المثل سواء كانت الدار معدة للاستغلال أو لم تكن صيانة للوقف وعليه الفتوى اھ (2/ 420)۔