کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے دادا سے لیکر آج تک ایک طریقہ رائج ہے کہ ہماری تقسیم نو حصوں پر کی جاتی ہے ( جسے نیکات کہتے ہیں) کیونکہ ہمارے دادا کے بعد سے اس طرح طریقہ جاری ہے، لہذا ہمارا ایک سرکاری سکول ہے یعنی ہماری زمین پر تعمیر شدہ ہے ، اور اس میں تین نوکریاں ہیں، تین علیحدہ ناموں پر ، لیکن یہ نام مستقل نہیں، بلکہ عارضی ہوتا ہے ، اور یہ تنخواہ جو ملتی ہے، ہم اس کو دو حصوں پر تقسیم کرتے ہیں، اسی دادا کے تقسیم کے مطابق ،اب ان میں سے ایک آدمی یعنی نوکر جلال خان نامی مر گیا ،اور اب اس کا پنشن اور میڈکل وغیرہ اس مرحوم کے ورثہ کے ہونگے ،یا ہم سب کے جو کہ نو حصہ دار ہیں ،اور ہم نے پہلے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مندرجہ بالا سکول میں نوکریاں حسبِ قاعدۂ سابقہ حصوں پر تقسیم کریں گے ، مگر کیونکہ اب میرے نام بھی ایک نوکری ہے ،اور اس میں بھی ہم سب پر حصہ دار شامل ہیں ۔ تو برائے مہربانی مسئلہ مذکورہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سےبیان فرما کر ثوابِ دارین حاصل کریں ۔
نوٹ: ہم عرف و رواج کے مطابق بھی اس کی وراثت یا نوکری وغیرہ کو نو حصوں پر تقسیم کرتے ہیں ۔
اگر یہ اسکول تمام قوم کی مشترکہ زمین میں ہو ،اور اس پر ڈیوٹی دینے والے افراد اس قوم کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کام کرتے ہوں ،اور یہ بات اہلِ حکومت کے علم میں بھی ہو تو اس سے حاصل ہونے والی مراعات میں بھی تمام افراد برابر کے شریک ہونگے، ورنہ نہیں۔
وفی مشكاة المصابيح: وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى (2/ 889)۔۔
ترکہ کی تقسیم(مرحومہ کے بالواسطہ و بلا واسطہ ورثاء =1 حقیقی بیٹا 1 سوتیلا بیٹا 2 حقیقی بیٹیاں 2 دو سوتیلی بیٹیاں)
یونیکوڈ احکام وراثت 0کسی نے حصۂ میراث اپنی زندگی میں طلب نہ کیا ہو تو اس کے ورثاء کا اس کے حصے کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ احکام وراثت 1