محترم مفتی صاحب!برائے مہربانی اس مسئلے میں میری راہنمائی فرمائیں،کیا رات بھر نماز اور روزے کے ذریعے پندرہ شعبان منانا بدعت ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ پٹاخے پھاڑنا اور حلوہ بنانا بدعت ہے،لیکن بہت سے علمائے نے ثابت کیا ہے کہ نماز اور روزہ بھی بدعت ہے ؟
پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت کئی روایاتِ حدیث سے ثابت ہے،اور پندرہ شعبان کو روزہ رکھنے کا بھی ایک حدیث سے ثبوت ملتا ہے،اس لئے نہ تو اس رات نماز پڑھنا ناجائز ہے،اور نہ ہی دن کو روزہ رکھنا بدعت ہے، البتہ ان اعمال کو فرض وواجب کی طرح لازم سمجھنا،اور اس رات کو مساجد میں چراغاں کرنا،اور اجتماعات کو لازم کر لینا،اور جو ایسا نہ کرے،اُسے بنظرِ حقارت دیکھنا،اور مختلف القاب سے نوازنا ایسے امور ہیں،جن کی وجہ سے ایک جائز بلکہ مستحب امر بھی بدعت بن جاتا ہے۔
کما في سنن الترمدى:عن عائشة رضي الله عنها قالت:فقدت رسول الله صلى الله عليه ليلة فخرجت فاذا هو بالبقيع (إلى قوله) فقال صلى الله علیه وسلم ان الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النصف من شعبان إلى سماء الدنيا فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب اھ (1/92) ۔
وفيھا ایضاً:عن عائشة رضي الله تعالى عنهاأنها قالت:ما رأيت النبي صلى الله علیه وسلم في شهر أكثر صياماً منه في شعبان كان يصومه إلا قليلاً بل كان يصومه كله اھ(1/92) ۔
وفي مرقاة المفاتيح : أن من أصر على أمر مندوب وجعله عزماً ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال اھ (3/31)۔
وفي الدر المختار: ومن المندوبات(الی قوله) وإحياء ليلة العيدين والنصف من شعبان اھ (2/25)۔