کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلۂ ہذاکے بارے میں؟
میں مسماۃ اقبال بی بی ، میں نے بہت عرصہ پہلے دو مکان خریدےہیں ، کچھ اس طرح سے کہ ابتداءً میں نے انعامی بانڈز جو کہ معروف ہےخریدے ہیں ، اپنے پیسوں سے ، پھر اس کو منافع میں بیچے، پھرخریدے، پھربیچے ، اس طرح سے میرے پاس کچھ مقدار پیسے جمع ہوگئے اور میں نے مزید پیسے ملاکر دو مکان خریدے ۔ آج سے بارہ سال پہلے کسی نے مجھے خبردار کیا کہ بانڈز کا لین دین ناجائز ہے۔ تو میں نے اس دن سے بانڈز کا لین دین چھوڑ دیاہے۔ لیکن مجھےبے چینی ہے کہ ان دونوں مکانوں سے جو کرایہ ملتاہے ،آیا وہ میرے لئے جائز ہوگا یا نہیں ؟ اگر جواب جائز کی صورت میں ہے تو کتنی مقدار میں جائز ہوگا ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں مکان کے بارے میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا چاہتی ہوں ،کسی دینی شعبے کو ، کیا میری وصیت جائز ہوگی؟
واضح ہو کہ بانڈز رکھنے والوں کو بصورتِ انعام جو کچھ ملتا ہے ،وہ اس قرض کی بناء پر ملتا ہے، جو بحیثیت مجموعی پرائز بانڈز رکھنے والوں سے مشروط ہے، اور قرض پر ہر قسم کا مشروط نفع احادیث وفقہ کی روشنی میں نا جائز اور سود ہے ،اور اس کو وصول کرنا اور اپنے استعمال میں لانا ناجائز اور حرام ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے بانڈز کی خرید وفروخت کرتے ہوئے اصل رقم سے جو زائد رقم بطورِ منافع حاصل کی ہے،اس کا لینا سائلہ کے لئے حلال اور جائز نہیں تھا، تاہم جب انہوں نے اپنی حلال رقم کے ساتھ اس رقم کو بھی شامل کر کے مکانات خرید لیے ہیں ،تو اس سے یہ دونوں مکان سائلہ کی ملک بن چکے ہیں، اور اب اس کا کرایہ لینا بھی اس کے لئے حلال ہے، تاہم منافع کے طور پر جتنی بھی سودی رقم ان مکانوں کی خریداری میں شامل ہو چکی ہے، اس قدر رقم بلانیتِ ثواب ضرورت مندوں پر صدقہ کرنا لازم ہے، جبکہ وصیت کل مال کے ایک تہائی کی حد تک نافذ ہوتی ہے ، اگر یہ دونوں مکان سائلہ کے کل جائیداد کی ایک تہائی یا اس سے کم ہو تو وصیت کرنے کی صورت میں وفات کے بعد اس پر عمل ہو سکتا ہے، ورنہ ایک تہائی سے زائد حصہ میں وصیت شرعاً معتبر نہ ہوگی۔
كما في حاشية ابن عابدين: [مطلب كل قرض جر نفعا حرام] (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ (5/ 166)۔
و في الدر المختار: (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا اھ (4/ 283)۔