جناب محترم علماءِ کرام السلام علیکم!
بعد از سلام مؤدبانہ گزارش ہے کہ بندہ کو آپ حضرات سے ایک کاروباری سلسلہ میں ایک فتوی درکا رہے۔
جناب ایک ٹھیکدار ہے، اگر میں اس کو گاڑی کرائے پر دونگا تو وہ مجھے مبلغ پچیس لاکھ پاکستانی بطورِ ایڈوانس دےگا، جس پر میں اپنی گاڑی کے اخراجات وغیرہ ادا کرونگا ،اور گاڑی افغانستان کے لئے ڈیزل اور جی پی ون تیل سپلائی کر ےگا، تو جناب عرض یہ ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کاروبار صحیح نہیں ہے، کیونکہ ڈیزل اور جی پی ون تیل نیٹو ممالک مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں یا جو بھی ہے۔ لہذا مجھے اس بارے میں صحیح معلومات فراہم کریں، کیا یہ کاروبار میرے لئے حلال یا نہیں؟ والسلام ، شکریہ
اگر یہ تیل وغیرہ کی سپلائی محض افغانستان کے لئے ہو تو اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں، اس مقصد کے لئے گاڑی خریدنا اور اسے اجرت پر لگانا بھی جائز ہے۔
اور اگر خالص نیٹو افواج کے لئے ہو(جو مسلمانوں کے جانی ومالی اخلاقی و معاشرتی نقصان پہنچانے ، ان کے عقائد و نظریات میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے جیسے مذموم مقاصد کے لئے کام کر رہی ہیں )تو یہ ایسے ظالم لوگوں کا تعاون شمار ہو گا اس لئے﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدة: 2) کے تحت اس سے احتراز ہی چاہیئے ۔
ففي الدر المختار: (ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد لا) (إلی قوله) قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها نهر اھ (4/ 268)۔
وفي حاشية ابن عابدين: (قوله: نهر) عبارته: وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به اھ (4/ 268)۔