حضرت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا نام ۔۔۔ کلوڑ ہے، میرا تعلق سندھ کے ضلع گھوٹگی سے ہے، میں درجہ ثالثہ کا طالب العلم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ کمائی کتنی سیکڑوں رکھنا جائز ہے بیوعات میں ؟ مثلاً میں نے سو روپیہ میں ایک کتاب خریدی، اس کو کتنے روپے اوپر لینا جائز ہے؟
واضح ہو کہ خرید و فروخت اور تجارت میں شریعت مطہرہ نے نفع کی کوئی خاص مقدار کی تعیین نہیں کی ہے ، بلکہ فریقین کی رضامندی پر چھوڑ دیا ہے ، اس لئے سائل بھی خریدار کی رضامندی سے جتنا نفع لینا چاہے لے سکتا ہے، مگر مارکیٹ ریٹ سے زیادہ لینا مکر وہ اور نامناسب ہے، جس سے حتر از کرنا چاہیے۔
كما في سنن ابن ماجه: عن أنس بن مالك، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله قد غلا السعر فسعر لنا، فقال: «إن الله هو المسعر، القابض الباسط الرازق، إني لأرجو أن ألقى ربي وليس أحد يطلبني بمظلمة في دم ولا مال» (2/ 741)۔
وفي حاشية السندي على سنن ابن ماجه: وفيه إشارة إلى أن التسعير تصرف في أموال الناس بغير إذن أهلها فيكون ظلما للإمام أن يسعر لكن يأمرهم بالإنصاف والشفقة على الخلق والنصيحة اھ (2/ 20)۔
وفي الدر المختار: (ولا يسعر حاكم) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق» (إلا إذا تعدى الأرباب عن القيمة تعديا فاحشا فيسعر بمشورة أهل الرأي) وقال مالك: على الوالي التسعير عام الغلاء وفي الاختيار ثم إذا سعر وخاف البائع ضرب الإمام لو نقص لا يحل للمشتري وحيلته أن يقول له: بعني بما تحب اھ (6/ 399) واللہ اعلم بالصواب!
رکشہ کمپنی والے کو ایڈوانس پیمنٹ دے کر ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا/ پلاٹوں کی تعیین اور فائلوں سے قبل ایڈوانس پیمنٹ دینے کی صورت میں قیمت میں رعایت کرنا
یونیکوڈ خرید و فروخت 1