کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک دوست نے ایک سوسائٹی کی فائل لی ہوئی ہے، اور کافی عرصے سے اس کی قسطیں دے رہے تھے، درمیان میں انہوں نے تین ماہ قسطیں ادا نہیں کی، جس کی وجہ سے سوسائٹی والوں کی طرف سے (3) تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا گیا ہے، میں نے ان کو کہا کہ آپ مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے دے دو میں آپ کا مسئلہ حل کر دوں گا،میں نے اس سے ڈیڑھ لاکھ روپے لیئے اور سوسائٹی والوں کے دفتر جا کر وہاں پر چند افراد کو رشوت کے طور پر (75)پچھتر ہزار روپے دیئے،جس کی وجہ سے (3)تین لاکھ روپے عائد کردہ جرمانہ معاف کر دیا گیا، اور (75) پچھتر ہزار روپے میرے پاس رہ گئے، اب ڈیڑھ لاکھ میں (75) پچھتر ہزار لینا میرے لئے شریعت کی رو سے درست ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگرچہ سائل کے دوست کا معاہدے کے مطابق بلاعذر واجب الاداء قسطوں میں کوتاہی کرنا معاہدے کی خلاف ورزی اور ممنوع فعل تھا،جس کی وجہ سے وہ قانوناً مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ عنداللہ بھی گناہگار ہوا،جس پر اسے بصدقِ دل سے توبہ و استغفار اور آئندہ کے لئے ایسا کرنے سے اجتناب لازم ہے،لیکن قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر ہونے کی صورت میں جو مالی جرمانہ وصول کیا جاتا ہے یہ شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا سوال میں مذکور سوسائٹی والوں کا سائل کے دوست سے تین ماہ کی قسطوں کی تاخیر کی وجہ سے اس پر تین لاکھ کا جرمانہ عائد کرنااور بعد میں اسے معاف کرنے کے لئے رشوت لینا ہر دو امور شرعاً ناجائز اور حرام ہے،جبکہ سائل کے لئے اپنے دوست کی اجازت اور علم میں لائے بغیر اسکی بقیہ رقم اپنے استعمال میں لانا درست نہیں،بلکہ اسے اپنے دوست کو واپس کرنا لازم ہے۔
کما فی أحكام القرآن للجصاص:قال الله تعالی:}ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالأثم{. والمراد، والله أعلم: لا يأكل بعضكم مال بعض بالباطل، كما قال تعالى: {ولا تقتلوا أنفسكم] {النساء: ٢٩[ وقوله:}ولا تلمزوا أنفسكم] {الحجرات: ١١[ يعني بعضكم بعضا، وكما قال عليه السلام: "أموالكم وأعراضكمعليكم حرام" يعني أموال بعضكم على بعض، أكل المال بالباطل على وجهين: أحدهما: أخذه على وجه الظلم والسرقة والخيانة والغصب وما جرى مجراه، والآخر: أخذه من جهة محظورة، نحو الثمار وأجرة الغناء والقيان والملاهي والنائحة وثمن الخمر والخنزير والحر وما لا يجوز أن يتملكه وإن كان بطيبة نفس من مالكه; وقد انتظمت الآية حظر أكلها من هذه الوجوه كلها اھ(1/304)
و فی مشكاة المصابيح:وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى(2/889)
و فی سنن ابی داؤد: عن عبد الله بن عمرو، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي"(3580)
و فی فقہ البیوع: إن زيادة الثمن من أجل الأجل، وإن كان جائزا عند بداية العقد، ولكن لا تجوز الزيادة عند التخلف في الأداء، فإنه ربا في معنى "أتقضي أم تربي"؟"، وذلك لأن الأجل، وإن كان منظورا عند تعيين الثمن في بداية العقد، ولكن لما تعين الثمن، فإن كله مقابل للمبيع، وليس مقابلا للأجل، ولذلك لا يجوز "ضع وتعجل" كما سيأتي تفصيله إن شاء الله تعالى. أما إذا زيد في الثمن عند التخلف في الأداء، فهو مقابل للأجل مباشرة لا غير، وهو الربا اھ(1/546)
و فی ردالمحتار: قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل اھ (6/63)
و فی الھندیۃ: وإن استأجروه لينقل من بلد إلى بلد قال محمد - رحمه الله تعالى -: إنه إن لم يعلم الحمال أنه جيفة فله الأجر، وإن علم فلا أجر له وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان.(4/449)
رکشہ کمپنی والے کو ایڈوانس پیمنٹ دے کر ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا/ پلاٹوں کی تعیین اور فائلوں سے قبل ایڈوانس پیمنٹ دینے کی صورت میں قیمت میں رعایت کرنا
یونیکوڈ خرید و فروخت 1