السلام علیکم!
میرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ہم لوگ دنیا میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں آخرت کی فکر نہیں، میرا مسئلہ ذرا دلچسپ ہے۔ اگر اس مسئلہ میں کسی کی میرے دل میں کوئی بدگمانی ہوتو اس کی بھی وضاحت کیجئے گا۔
۱۔ میرا کام پرنٹنگ پریس سے ہے۔ اس میں کچھ معزز لوگ بھی ہیں۔ پرنٹنگ پریس میں کام کی نوعیت الگ الگ ہے۔ کوئی دو نمبر کام کرتاہے اور کوئی دینی کام/ اچھے کام کرتا ہے۔ ایک طرف علماءِ کرام کہتے ہیں کہ بینک کی نوکری حرام ہے ۔ ہم نے اس بات کو مان لیا کہ بینک کی نوکری حرام ہے ۔ میں نے آپ سے پہلے بھی فتویٰ لیاتھا۔ اس میں آپ نے بالکل نا جائز قرار دیاتھا۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ میں اگر ایک حرام کام کرتا ہوں ۔ جیسے کہ ویڈیو کی دوکان یا شراب کا اڈہ کھولتا ہوں تو میری دوکان جب چلے گی جب میری دوکان میں گاہک آئےگا، میرا گاہگ میرے ساتھ تعاون کرتا ہے، جب ہی میری دوکان چلے گی۔ اگر میری دوکان میں گاہگ ہی نہیں ہوگا تو میرا دوکان کھولنے کا کیا فائدہ۔ تو میں دوکان بند کر دونگا۔ اسی طرح ہم لوگ بینک کا کام کرتے ہیں، بینک کا سارا کام کاغذ سے ہوتا ہے۔ اگر کاغذ ہی نہیں ہوگا بینک کی کاروائی کیسے چلے گی؟ اس طرح ہم بھی بینک کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، ہم بھی سود میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ ہم بھی گناہ گار ہیں۔ ہم اس کے پیسوں سے کھار ہے ہیں، پی ر ہے ہیں۔ لیکن ہم کو یہ عمل ناگوار نہیں گزرتا، جب بات کرو بینک میں نوکری کرنے کی تو لوگ یہی جانتے ہیں کہ یہ حرام ہے، اور بینک کے ساتھ تعاون کرنے میں شرماتے نہیں ہیں، اسے محنت کی اور خون کمائی کی روزی کو حلال سمجھتے ہیں۔ بینک کے ساتھ تعاون کا ایک طریقہ اور بھی ہے اس میں اکاؤنٹ کھولنے کا۔ اکاؤنٹ کھولتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ایک حرام اور سود کے پیسوں سے چل رہا ہے ،یہ بڑے بڑے علماء نے اپنے اکاؤنٹ کھولے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے تعاون کرنے کا ، اگر سب ہی لوگ بینک کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیں تو یہ سودی نظام کے بینک بند ہو جائیں ۔ ہمارے سیٹھ صاحب جو خود بظاہر ایک تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، وہ خود بینک کا کام کرتے ہیں۔ اور اس کو برا نہیں سمجھتے، میرا دل اس چیز کو نہیں مانتا کہ سودی نظام کے بینکوں کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ برائے مہربانی مجھے اس سوال کاتسلی بخش جواب دیجئے۔ تا کہ اگر یہ نوکری نا جائز ہے۔ میں نوکری چھوڑ دیتا ہوں ۔ میرا تعلق بھی دین کی نسبت سے ہے۔ میں اللہ کے خاص گھر کے لوگوں میں سے ہوں ۔ میں نہیں چاہتا کہ اللہ کی نافرمانی کر کے چند ہزار روپوں کے لئے اللہ کو ناراض کروں ۔ اللہ ناراض ہو گئے تو سب کچھ لٹ گیا۔
۲۔ آپ نے ایک بات کی وضاحت نہیں کی تھی کہ کیا گورنمنٹ کے بینکوں کی نوکری جائز ہے یا ناجائز؟ جہاں تک میری معلومات ہیں کہ یہ تو مرکز ہیں، ان کا تعلق سود سے نہیں ہوتا، یہ بھی گورنمنٹ کے اور محکموں میں سے ایک محکمہ ہے۔ ان کا کام تو نئے نوٹوں کی اشاعت اور دوسرے امور کے کام ہوتے ہیں۔ جیسے اور بینکوں کا نظام سود کے بنیاد پر ہے، اس لئے ان میں تنخواہیں بھی اسی پیسوں میں سے دی جائیں گی، مگر ان گورنمنٹ کے بینکوں سے تنخواہیں گورنمنٹ سے آتی ہیں ،ان کا سود سے کوئی لینا دینا نہیں، تو کیا اس گورنمنٹ کے بینکوں میں اجازت ہے نوکری کر نے کی؟ برائے مہربانی وضاحت کیجیے گا کہ اگران بینکوں میں نوکری جائز ہے تو بینک کے کس شعبے میں نوکری جائز ہے؟
۳۔ پرنٹنگ لائن میں آج کل لوگ پیسہ کمانا ایک مہارت سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں سوچ رہے کہ یہ صحیح ہے کہ نہیں ،مسئلہ یہ ہےکہ ہم پارٹیوں کو ریٹ دیتے ہیں کسی اور چیز کااور کام کرتےہیں کسی اور طریقہ سے۔ پیسے بچانے کے لئے، تو کیایہ گاہگ کے ساتھ دھو کے بازی ہوگی یا ہماری مہارت؟
۴۔ ہماری مارکیٹ میں ہر کام ادھار پر ہوتا ہے۔ مہینے کا ادھار یا پھر ہفتہ کا ۔کہتے ہیں کہ کیش پر لوگے تو یہ پیپر یا کچھ بھی اتنے کی ،اگر ادھار پر لوگے تو اتنے کی، مطلب کیش پر پیسے کم ہوتے ہیں ۔ اور ادھار 10 روپے یا 20 روپے اوپر ہی ہوتے ہیں ، کیا یہ جائز ہے کہ ناجائز ؟ قرآن اور احادیث سے وضاحت کیجیے۔ جزاک اللہ
۱۔ محترم سب سے پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ ہر وہ شئی جس کا بلا واسطہ استعمال جائز و نا جائز ہر دو امور میں ہو اس کی خرید و فروخت بلا شبہ جائز اور درست ہے ۔ اور یہی حکم کا غذ کا بھی ہے، نیز جو کاغذ کوئی بینک خریدتا ہے ضروری نہیں کہ اس سارے کاغذ پر سودی معاملات ہی لکھے جائیں، بلکہ غیر سودی معاملات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح بحالتِ مجبوری بینک کے غیر سودی اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کی شرعاً بھی گنجائش ہے۔
۲۔ حکومت کے بینک (یعنی اسٹیٹ بینک ) بھی دوسرے بینکوں اور متعلقہ اداروں کو سود اور دیگر غیر شرعی شرائط پر مبنی قرض فراہم کرتا ہے، اس لئے اس بینک میں بھی نوکری کرنا شرعاً جائز نہیں۔
۳۔ مذکور عمل بلا شبہ ناجائز اور دھوکہ بازی ہے، جس سے احتراز لازم ہے۔
۴۔ اگر اس طرح ادھار کی خرید و فروخت میں شروع ہی عقد میں یہ طے کر لیا جائے کہ ادھار پر معاملہ ہو گا تواس قیمت پر ہوگا اور اتنے عرصہ میں یہ قیمت وصول کی جائیگی، ہر دفعہ اتنی رقم دینی ہوگی اور اگر پوری رقم دینے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو اس پر کی قسم کا کوئی جرمانہ وغیرہ بھی نہ لیا جاتا ہو تو اس طرح نقد کے مقابلہ میں ادھار کی وجہ سے چیز کے زیادہ دام وصول کرنا بلاشبہ جائز اور درست ہے۔ اس کے بعد واضح ہو کہ سائل کے لئے اس طرح معترض بننے کی بجائے اپنے طور پر اوامر ِشرع کے موافق عمل کرنے اور اپنے احباب و متعلقین کو بھی اس پر آمادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
رکشہ کمپنی والے کو ایڈوانس پیمنٹ دے کر ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا/ پلاٹوں کی تعیین اور فائلوں سے قبل ایڈوانس پیمنٹ دینے کی صورت میں قیمت میں رعایت کرنا
یونیکوڈ خرید و فروخت 1