محترم مفتی صاحب! میں مذکورہ طلاق نامہ اردو تحریر میں لکھ چکا ہوں، برائے مہربانی مجھے بتائیے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش ہے، کیار جوع کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
میں ۔۔۔ فلاں کا بیٹا ۔۔۔۔ ہوش و حواس کےساتھ اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ بے وجہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے اور خیالات کے عدم توافق کی بناء پر میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی ۔۔۔ دختر ۔۔۔کو رشتہ ازدواج سے ۱۔ آزاد کرتا ہوں ، ۲۔آزاد کرتا ہوں ، ۳۔ آزاد کرتا ہوں، اور یہ کہ اس کے بعد میرا اس کے ساتھ کوئی قانونی یا شرعی تعلق باقی نہیں رہے گا اور نہ ہی وہ قانونا یا شرعاً اس کا حقدار ہے۔
واضح ہو کہ زبان سے کہے بغیر ہی اپنی رضا مندی سے بلا کسی جبر و اکراہ کے تحریری طلاق لکھنے اور اس پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس لئے صورت مسئلہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقد نکاح ہو سکتا ہے، سائل پر لازم ہے کہ فورا اس عورت سے علیحدگی اختیار کرے اور اب تک ساتھ رہنے کی وجہ سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، اس پر بصدق ِدل توبہ و استغفار بھی کرے۔
كما في الدر المختار: ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة اھ (3/ 246)
وفي حاشية ابن عابدين: (قوله طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم، ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط بحر، ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم رحمتي. ولو وصل إلى أبيها فمزقه ولم يدفعه إليها، فإنه كان متصرفا في جميع أمورها فوصل إليه في بلدها وقع، وإن لم يكن كذلك فلا ما لم يصل إليها. وإن أخبرها بوصوله إليه ودفعه إليها ممزقا، وإن أمكن فهمه وقراءته وقع وإلا فلا ط عن الهندية. وفي التتارخانية: كتب في قرطاس: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان طلقت ثنتين قضاء إن أقر أنهما كتاباه أو برهنت اھ (3/ 246)
و فى الدر المختار: (والكتابة كالخبر) اھ (3/ 807)