کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص حافظِ قرآن بھی ہو اور نابینا بھی ، آیا مذکور شخص امام بن سکتا ہے یا نہیں؟ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔
نوٹ: نابینا حافظِ قرآن شمالی علاقہ جات کا رہائشی ہے، جبکہ ان علاقوں میں گندگی وغیرہ زیادہ پائی جاتی ہے جو کہ اکیلے چلنے پھرنے کی وجہ سے وہ نابینا شخص اپنے آپ کو گندگی سے نہیں بچا سکتا ہے، جبکہ کچھ لوگوں کو اس پر اعتراض ہے۔
مذکور نابینا شخص کے علاوہ اگر کوئی اور لائقِ امامت شخص نہ ہو اور مذکور نابینا محتاط بھی ہو تو محض نابینا ہونے کی وجہ سے اس کی امامت پر معترض ہونا درست نہیں، تاہم اگر واقعۃً یقین ہو کہ یہ شخص محتاط نہیں اور اس کی وجہ سے بعض نمازیوں کو دلی انقباض بھی ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور لائقِ امامت شخص موجود ہو تو ایسی صورت میں اس کی امامت مکروہ ہے اور ایسے شخص کو امامت سے خود بھی احتراز چاہیۓ۔
فی حاشية ابن عابدين : تبع في ذلك صاحب البحر : حيث قال : قيد كراهة إمامة الأعمى في المحيط و غيره بأن لا يكون أفضل القوم ، فإن كان أفضلهم فهو أولى اهـ ثم ذكر أنه ينبغي جريان اھ (1/ 560)۔
و فی الهدایة : و یکره تقدیم العبد لأنه لا یتفرغ للتعلم و الأعرابی لأن الغالب فیهم الجهل و الفاسق لأنه لا یھتم لا مردینه و الاعمیٰ لأنه لا یتوقی النجاسة اھ (۱/۱۲۲)۔