کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں،کہ میں مسمی اسلم ولد زبرمن کا نکاح مسماۃ مسکان بنت میاں سید علی سے تقریبا دو سال قبل ہو گیا تھا ، اس نکاح سے ہماری ایک بیم بھی ہے،آج سے تقریبا ڈھائی تین مہینے قبل گھر میں کچھ لڑائی جھگڑے کے دوران میں نےاپنی بیوی کو طلاق کے الفاظ بولے تھے ، لیکن میرا غالب گمان یہ ہے ،کہ میں نے دو مرتبہ طلاق کا جملہ بولا تھا ،" تہ ما طلاقہ ئے "جبکہ میری بیوی کا کہنا ہے کہ میں نے یہ جملہ چار مرتبہ بولا ہے " تہ پہ ما طلاقہ ئے" تم مجھ پر طلاق ہو"۔
دونوں میاں بیوی کو دارالافتاء بلایا گیا تھا،شوہر اس بات کا اقرار کرتا ہے ،کہ میں نے طلاق کے الفاظ بولے ہے، لیکن یہ مجھے یاد نہیں ہے ، کہ کتنی مرتبہ بولے، یہ یقینی یاد نہیں ہے، لیکن غالب گمان یہ ہے کہ میں نے دو مرتبہ یہ الفاظ بولے ہے ،جبکہ بیوی مسماۃ مسکان کا بیان یہ ہے ،کہ یہ جملہ اس نے چار مرتبہ بولا ہے، اور میں اس پر حلفیہ بیان بھی دے رہی ہوں، کہ یہ جملہ چار مرتبہ بولا تھا ،جبکہ شوہر حلفیہ بیان دینے کیلئے تیار نہیں ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے ،کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئیں،اور اب ہمارے لئے کیا حکم ہے۔
واضح ہو کہ میاں بیوی کے درمیان تعدادِطلاق کے بارے میں اختلاف واقع ہونے کی صورت میں بیوی پر اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کیلئے دو شرعی گواہوں کو پیش کرنا ضروری ہے ، ور نہ شوہر سے قسم لی جائےگی ،اگر شوہر قسم اٹھالے تو اس کے حق میں فیصلہ ہوگا ،لیکن اگر شوہر قسم کھانے سے منکر ہو ،تو پھر بیوی کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا۔
لہٰذا صورت ِمسئولہ میں سائل کی بیوی چار مرتبہ طلاق دینے کا دعوی کر رہی ہے، لیکن بیوی کے پاس اپنے اس دعوٰی کو ثابت کرنے کیلئے شرعی گواہان موجود نہیں، جبکہ دوسری طرف شوہر دو طلاقیں دینے کا اقرار کر رہا ہے ، اس سے زائد کا منکر ہے، لیکن وہ اپنی اس بات پر قسم نہیں اٹھا رہا، چنانچہ ایسی صورتِ حال میں بیوی کے حق میں فیصلہ کیا جا کیا جائے گا،لہٰذا سائل کی بیوی پرتینوں طلاقیں واقع ہوکرحرمت مغلظ ثابت ہو چکی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا اور بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ باہم عقد ِنکاح بھی نہیں ہو سکتا، اس لئے دونوں پر لازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے علیحدہ گی اختیار کریں ، اور میاں بیوی والے تعلقات ہر گز قائم نہ کریں،ور نہ دونوں سخت گنا ہ گارہونگے ، جبکہ عورت عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے۔
کما فی القرآن الکریم :فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (البقرہ /230)
وفی مشکاۃ المصابیح : عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» . رواه الترمذي اھ (2/1112)
وفی الرد :المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.اھ(3/251)
و فی الہدایہ :وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها " والأصل فيه قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} [البقرة: 230]اھ (2/258)