حضرت ! مجھے یہ پوچھنا ہے کہ "کے، ایف، سی" کی مرغی عالمی سطح پہ حرام ہیں یا حلال؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ آج کل یہ سوال عام ہے کہ اگر مرد کا اپنے ذکر کو ہاتھ لگ گیا ، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے دوبارہ کرنا پڑےگا ؟ کیا یہ بات درست ہے؟ براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں اللہ پاک آپ کو جزائے عظیم عطا فرمائے۔ آمین
۱۔ "کے، ایف،سی" میں دستیباب مرغیاں اگر کسی مسلمان یا کتابی کی ذبح کی ہوئی ہوں اور شرعی طریقہ سے ذبح کی ہوئی ہوں ، تو ان کا کھانا بلاشبہ جائز اور حلال ہے، تاہم اگر تحقیق سے معلوم ہو جائے کہ" کے، ایف، سی" کی مرغیاں شرعی طریقہ سے ذبح نہیں کی گئی ہیں تو اس کے کھانے سے احتراز لازم ہے۔
۲۔ ذکر کو ہاتھ لگانا ناقصِ وضو نہیں ہے، لیکن اگر بلاحائل ذکر کو ہاتھ لگایا تو اس صورت میں ہاتھ کو دھونا مستحب ہے۔
فی الدر المختار : (لا) ينقضه (مس ذكر) لكن يغسل يده ندبا (و امرأة) و أمرد ، لكن يندب للخروج من الخلاف لا سيما للإمام اھ (1/ 147)۔
و فیه أیضاً : قلت : و قد وقع في عصرنا حادثة الفتوى ، و هي أن رجلا وجد شاته مذبوحة ببستانه هل يحل له أكلها أم لا ؟ و مقتضى ما ذكرناه أنه لا يحل لوقوع الشك في أن الذابح ممن تحل ذكاته أم لا ، و هل سمى الله تعالى عليها أم لا اھ (6/ 476)۔
و فی حاشية ابن عابدين : تحت (قوله لوقوع الشك إلخ) (إلی قوله) بخلاف الذابح في بلاد الإسلام فإن الظاهر أنه تحل ذبيحته و أنه سمى ، و احتمال عدم ذلك موجود في اللحم الذي يباع في السوق ، و هو احتمال غير معتبر في التحريم قطعا (إلی قوله) (قوله و في الثاني يحتمل) فيه أن احتمال الثاني كون الذابح هو المالك لا ينفي احتمال أنه مجوسي أو تارك التسمية عمدا ، فالأولى أن يقال : إن كان الموضع مما يسكنه أو يسلك فيه مجوسي لا يؤكل و إلا أكل ، و لا يتعرض بشأن ترك التسمية عمدا فإن الظاهر من حال المسلم و الكتابي التسمية لأنه يعتقدها دينا اھ (6/ 476)۔