السلام علیکم!
اگر کم تنخواہ ہونے کی وجہ سے گھر کا گزارا نہ ہو رہا ہو ،اور وہ قرض دار بھی ہو تو وہ مجبوری میں بینک سے سودی قرض لے سکتا ہے؟
سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وسنت کی واضح نصوص کی روسے شرعاً نا جائز اور حرام ہے، قرآن حدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لہذا مجبوری میں بھی سودی قرض لینا جائز نہیں، جس سے احتراز لازم ہے ۔ اس لئےبینک وغیرہ سے سودی قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرنے کے بجائے کسی فرد یا ادارے سے بلا سود قرض لے لیا جائے، یا کسی مالیاتی ادارے سے جائز متبادل طریقے کے ذریعہ اپنی ضرورت پوری کر لی جائے۔
كما قال الله تعالى: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة: 275)۔
قال اللہ تعالیٰ: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾ [البقرة: 278]۔
وفي مشكاة المصابيح: عن جابر رضي الله عنه قال : لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: "هم سواء" . رواه مسلم (2/ 134) ۔
وفي الدر المختار: ما تقرر أن الديون تقضى بأمثالها اھ (۳/ ۶۰۵)۔
وفي حاشية ابن عابدين: (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، اھ (5/ 166)۔
قرض کی مدت پوری ہونے پر, قرضخواہ کا مقروض کے کاروبار میں, خود کو شریک سمجھ کر نفع کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ قرض 0