السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب مفتی صاحب میرے سسر نے جب وہ حیات تھے تو 1984ءمیں ایک فرنیچر شو روم لیا تھا، جس کی قیمت ساٹھ لاکھ پچاس ہزار (750000 )تھی، اس رقم میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے میری نند نے ملائے تھے، اور ان کے کہنے کے مطابق ایک لاکھ روپے سسر صاحب نے اُن کی طرف سے ملائے تھے اور شوروم سسر نے آدھا بیٹے کے نام اور آدھا بیٹی کے نام خرید کر دیا تھا، اس کے علاوہ ایک گودام بھی جوایک لاکھ بیس ہزار روپے کا تھا، خریدا تھا وہ بھی آدھا بیٹے کے نام اور آدھا بیٹی کے نام کیا تھا، جبکہ والد یعنی سسر کی زندگی میں شو روم میں کام بیٹا کرتا تھا، اس نے ادھار مال لے کر کام شروع کر دیا تھا۔ لیکن والد کے انتقال کے بعد بیٹی کے کہنے پر بیٹے نے دو ہزار مہینے کے دینے شروع کر دیے تھے۔ جب والد صاحب نے شور روم میں بیٹی کو آدھا حصہ اور گودام میں بھی آدھا حصہ دے دیا اس کے بعد کئی مواقع پر والد نے اپنے بیٹے سے یہ بات کہی تھی کہ ہم نے تمہاری بہن کو جو دینا تھا دے دیا ہے، اب تم لوگوں کوکچھ کرنے یا دینے کی ضرورت نہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ایک مارکیٹ اور ایک کارخانہ لکڑی کا ہے , ورثاء میں 6 بیٹے اور 2 بیٹیاں اور ایک اہلیہ (جو کہ دماغ کے فالج میں مبتلا ہیں اور دماغ دن بدن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے، کچھ سمجھتی نہیں ہیں۔ بس دیکھتی رہتی ہے اور نہ بولتی ہیں ) شامل ہیں۔ جبکہ بیٹوں کو جو کا روبار کروایا تھا تو انہیں اس کا نفع نقصان کا ذمہ دار بنا دیا تھا, جو بیٹا جو کماتا تھا اس کا نفع نقصان اس کے ذمے تھا۔
(۱) والد صاحب کے کہنے کے مطابق کیا بڑی بیٹی کا وراثت میں حصہ ہوگا؟ جبکہ والد صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے جو دینا تھا دے دیا۔ (۲) کیا شوروم میں بیٹی کا آدھا حصہ ہوگا، جبکہ قبضہ بیٹی کا نہیں تھا، کاغذات میں بیٹی کے نام آدھا تھا، جبکہ بیٹی نے صرف ڈیڑھ لاکھ ملائے تھے۔ تو جنتی رقم ملائی تھی اسی تناسب سے حصہ ہوگا؟ کیا آدھا حصہ دیا جائےگا، سسر نے جو ایک لاکھ بیٹی کی طرف ملائے تھے تو کیا بیٹی کا حصہ ڈھائی لاکھ کے تناسب سے ہوگا یا آدھا حصہ ملےگا؟ (۳) شوروم خریدنے کے تقریباً دو سال بعد نند کے شوہر نے والد صاحب سے ذ کر کیا کہ مجھے کا روبار میں پیسے لگانے ہیں (یہ کارخانہ بھی سسر نے نند کے شوہر کو دیا تھا اور بعد میں نند کی شادی ہوئی تھی) تو میرےپاس گلشن میں پلاٹ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ اسے فروخت کر کے کاروبار میں لگاؤں، جس پر سسر نے کہا کہ پلاٹ نہ بیچو , میں کاروبار میں پیسے لگاتا ہوں تم یہ پیسے پرافٹ کے ساتھ چھوٹی بیٹی کی شادی پر دے دینا (اس وقت چھوٹی نند تقریباً گیارہ، بارہ سال کی تھی) اور سسر کے انتقال کے بعد جب ورثاء نے رقم کا مطالبہ کیا تو نند نے کہا کہ میرے شوہر کے کاروبار میں نفع نہیں ہوا , اس پر ورثاء نے کہا کہ تم نے شوروم میں ڈھائی لاکھ لگائے اور دو سال بعد ڈھائی لاکھ لے لیے, ورثا اس بات پر تیارہیں کہ اگر شرعی حصہ نہیں بنتا تو وہ آدھا شوروم دے دینگے۔ جبکہ اس دوران تقریباً 180000 کے قریب شو روم سے مختلف صورتوں میں رقم بھی لی ہے بطور کرایہ ۔ جبکہ مذکورہ پلاٹ پر تین منزلہ نہایت خوبصورت گھر بنوایا ہے ( ماشا الله ) براہِ مہربانی اس مسئلے کا کوئی حل بھی بتا دیں ۔ ورثاء کا کہنا ہے کہ اگر شرعی حصہ بنتا ہے، (جبکہ والد صاحب کہہ کہ گئے تھے کہ اب ہم نے جو دینا تھا وہ دے دیا) تو وہ شرعی حصہ دینے کو تیار ہیں ۔ لیکن نند کے شوہر کے کاروبار میں جو پیسہ لگا تھا اس کا حساب کیسے ہوگا؟ اور جو رقم کاروبار میں لگائی وہ چھوٹی بیٹی کو ملے گی یا تمام ورثاء کا حصہ ہوگا؟ جبکہ والد کے انتقال کے بعد ایک مکان تمام ورثہ نے چھوٹی بیٹی کے نام کر دیا تھا ۔جزاک اللہ خیراً
واضح ہو کہ جب مذکور شو روم کی خریداری میں بیٹی کی طرف سے مبلغ اڑھائی لاکھ روپے کے عوض اسے آدھے شو روم کا شریک ٹھہرایا گیا تو اس سے وہ شرعاً بھی آدھے حصے کی مالک بن گئی ہے اپنے آدھے حصے میں اپنی مرضی کے موافق تصرف کرنے کی بھی مجاز ہے ۔
۲۔ گودام کی خریداری میں والد مرحوم نے اگر بیٹی کو اس کے حصہ کی رقم دے کر پھر اس سے گودام کی خریداری کروائی ہو تاکہ بوقتِ خریداری بیٹی بھی اس گودام میں شریک ہو جائے جیسا کہ شوروم کی خریداری کے وقت ہوا تھا یا والد مرحوم نے اپنے پاس سے رقم دے کر گودام خریدا اور بعد میں بیٹے اور بیٹی کے درمیان تقسیم کر کے مالکانہ قبضہ کے ساتھ ان دونوں کو ہبہ کر دیا ہو یا مالکانہ قبضہ تو نہ دیا ہو مگر گودام اتنا چھوٹا ہو کہ قابل تقسیم نہ ہو تب یہ دونوں اپنے اپنے حصہ کے مالک ہیں، ورنہ یہ گودام والد مرحوم کا ترکہ شمار ہو کر ان کے تمام ورثاء میں بقدرِ حصص تقسیم ہوگا۔
اور جس بیٹے یا بیٹی کو والد مرحوم نے اپنی صحت والی زندگی میں جو کچھ دیکر اس پر اسے مالکانہ قبضہ بھی دے دیا تھا، تب تو وہ بیٹا یا بیٹی وغیرہ اس چیز کے تنہا مالک ہیں اور اس میں تصرف کے بھی مجاز ہیں اور اگر محض کا غذوں میں نام کیا ہو مالکانہ قبضہ نہ دیا ہو تو اس طرح محض کاغذوں میں نام کرنے سے وہ شخص اس چیز کا مالک نہیں بنا، بلکہ وہ چیز بدستور والد کی ملک اور ان کا ترکہ شمار ہوگی۔
جو رقم سائلہ کی نند کے شوہر کو کاروبار کے لئے دی گئی تھی، اس کا حکمِ شرعی معلوم کرنے سے پہلے درجِ ذیل چند امور کی وضاحت ضروری ہے :
(۱) یہ کہ یہ رقم کتنی تھی ؟
(۲)یہ کہ رقم دیتے وقت باقاعدہ کوئی تحریر بھی کی گئی تھی یا نہیں ؟
(۳) یہ کہ کن کن شرائط کی بنیاد پر یہ رقم دی گی تھی؟
(۴) یہ کہ نفع ونقصان کی تقسیم کا کیا تناسب قائم کیا گیا تھا ؟
(۵) یہ کہ مذکور داماد کے کاروبار میں نقصان کس نوعیت کا اور کتنا ہوا ؟
(۶) یہ بھی بتائیں کہ مرحوم سسر کے انتقال کے بعد بیٹی نے جو مبلغ اڑھائی لاکھ روپے لیے تھے وہ کس مقصد کے لئے اور کیا بول کر لیے گئے تھے ؟
(۷) اسی طرح مبلغ ایک لاکھ اسی ہزار روپے کیونکر لیے؟ اور انہیں کس بنیاد پر دیے گئے ؟اور یہ کہ مذکور پلاٹ کا کتنا کرایہ لینا دینا طے ہوا تھا ؟
اس کے بعد واضح ہو کہ مرحوم کا ترکہ اصول ِمیراث کے موافق ان کے مذکور ورثاء یعنی بیوہ اور اولاد ( خواہ مرحوم نے اپنی زندگی میں اسے کچھ دیا ہو یا نہ ، وہ سب اس کے وارث ہیں) ان کے درمیان اس طرح تقسیم ہو گا کہ مرحوم نے بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد سونا، چاندی نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھر یلو ساز و سامان چھوڑا ہے، اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط مصارف ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم کے ذمہ کچھ قرض یا بیوہ کا حق مہر واجب الادا ہو تو ادا کریں ،اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کی ایک تہائی (۳/۱) کی حد تک اس پر عمل کریں۔اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کے ( ۱۱۲) حصے کر کے مرحوم کے ہر بیٹے کو (۱۴) حصے، ہر بیٹی کو (۷) حصے، بیوہ کو (۱۴) حصےدے دیں، آپ کی سہولت کی خاطران حصوں کو نقشہ کی صورت میں بمع فیصد کے بھی واضح کیا گیا ہے۔
مسئلہ۸تصحیح۱۱۲ المضروب: ۱۴
می__________________________________________________________ت
بیوہ ، بیٹا، بیٹا، بیٹا، بیٹا، بیٹا، بیٹا، بیٹی، بیٹی
۱ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۷ ۷
۱۴ ۹۸
۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۱۲.۵۰ ۶.۲۵ ۶.۲۵
کما فی النتف في الفتاوى للسغدي: والثالث شركة الخاص وتسمى ايضا شركة الخير وهي ان يرثا ميراثا او يقبلا وصية او توهب لهما هبة متساوية بينهما او اشتريا مالا عبدا او دابة او غيرهما بصفقة واحدة وهذه شركة وقعت لهما فيما ذكرنا ليست بشركة عقد يعقدان عليها فالربح والوضعية على رأس المال لا يجوز تفضيل الربح ولا الوضيعة في هذه الشركة اھ (1/ 534)
وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: وأما حكم الشركة. فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه اھ (6/ 65)
وفي الدر المختار: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه (إلی قوله) (وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ والملك) فلا تصح هبة صغير (إلی قوله) و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) (وركنها) هو (الإيجاب والقبول) كما سيجيء. (وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم) اھ (5/ 687)
وفي حاشية ابن عابدين: لكن إخراج المشترك عن الملك بهبة يشترط له كونه غير قابل للقسمة كبيت صغير وحمام وطاحون اھ (4/ 303)۔
ترکہ کی تقسیم(مرحومہ کے بالواسطہ و بلا واسطہ ورثاء =1 حقیقی بیٹا 1 سوتیلا بیٹا 2 حقیقی بیٹیاں 2 دو سوتیلی بیٹیاں)
یونیکوڈ احکام وراثت 0کسی نے حصۂ میراث اپنی زندگی میں طلب نہ کیا ہو تو اس کے ورثاء کا اس کے حصے کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ احکام وراثت 1