کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی کا انتقال ہوا ہے،ان کے ورثاء میں ایک بیٹی (نور فاطمہ) شوہر (کامران) اور والدین حیات ہیں، اب سوال یہ ہے کہ مرحومہ کا ترکہ مذکور ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاكم اللہ!
نوٹ: سسرال والے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جو جہیز میں دیا تھا، وہ سب ہمارا ہے، وہ ہمیں دیدیں۔
جاننا چاہیے کہ سائل کی بیوی کو ان کے والدین کی طرف سے جو کچھ جہیز وغیرہ ملا تھا، وہ سائل کی بیوی مرحومہ کی ملک تھا ،اب ان کے انتقال کے بعد دیگر ترکہ کی طرح یہ بھی مرحومہ کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا، سائل کے سسرال کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ سب ہمارا ہے، اس لئے انہیں اپنے اس دعوی سے دستبردار ہونا لازم ہے۔
اس کے بعد واضح ہو کہ سائل کی بیوی مرحومہ کا ترکہ اصول میراث کے مطابق ان کے مذکور ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحومہ نے بوقت انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ، سونا چاندی زیورات نقد رقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھر یلو ساز و سامان اپنی ملکیت میں چھوڑا ہے، وہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔ جبکہ مرحومہ کے کفن دفن کے متوسط مصارف اس کے شوہر پر لازم ہیں، اگر وہ شوہر نے اداء کر دیئے ہوں یا کسی اور نے بطور تبرع و احسان ادا کر دیئے ہوں تو وہ ترکہ سے منہا نہ کئے جائیں گے، اس کے بعد دیکھیں کہ مرحومہ کے ذمہ کچھ قرض واجب الاداء ہو تو وہ اداء کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کی ایک تہائی (۳/۱) کی حد تک اس پر عمل کریں اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کل تیرہ (13) حصے کیئے جائیں ،جن میں سے تین حصے (3) شوہر کو، چھ حصے (6) بیٹی کو ،دو حصے ماں کو اور دو حصے باپ کو دیئے جائیں۔