کیا فرماتے ہیں علماء ِکرام وراثت کے اس مسئلہ کے بارے میں: بزرگوار حاجی عبدالقادر 28 سال قبل انتقال فرما گئے، اُس وقت ترکہ میں ایک بڑا مکان اور کچھ زمینیں چھوڑی تھیں،ان کے دو بیٹے زید اور بکر اور ایک بیٹی اسماء ہیں، سوئم کے بعد زید نے اپنی بہن سے کہا کہ وراثت میں آپ کے ستر ہزار روپے بنتے ہیں ،جو میں چند دنوں میں آپ کو پہنچا دوں گا، (یہ معلوم نہیں کہ اُس وقت زید نے زمینوں کی قیمت ترکے میں شامل کی تھی یا نہیں)بہن نے اسی وقت خوشی اور رضامندی سے کہا کہ میں نے سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے بخش دیا ہے،واضح رہے کہ اس مجلس میں رقم یا ترکے کی کوئی چیز موجود نہ تھی،صرف زبانی گفتگو ہوئی، وقت گزرنے کے ساتھ زید کا بھی انتقال ہوگیا،تب بکر نے زمین کا ایک حصہ بیچ دیا ،اور بہن کو کوئی حصہ نہ دیا،اب پوری زمین بھاری رقم کے عوض بیچی گئی ہے ،اور اس بار بہن اپنے شرعی حصے کا تقاضا کر رہی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا شریعت میں اس وقت بہن کا اپنے حصے کا مطالبہ جائز ہے؟ جبکہ بکر کہتا ہے کہ تم نے تو اُسی وقت اپنا حصہ بخش دیا تھا،کیا اسماء کا اُس وقت کا بخش دینا "تخارج" کے اصول پر پورا اترتا ہے؟
واضح ہو کہ شریعتِ مطہّرہ میں جس طرح میراث میں بیٹوں کا حصہ ہے ،اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر ہے ، اور کسی بھی وارث کا شرعی حصۂ میراث اس کے چھوڑنے یا فقط معاف کر دینے سے ساقط نہیں ہوتا ، اور نہ ہی یہ تخارج کے اصولوں پر پورا اترتا ہے ،۔لہذا صورتِ مسئو لہ میں اسماء کا زید مرحوم کو صرف یہ کہنے ” میں نے سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے بخش دیا ہے “ اس کا حصۂ میراث ختم نہیں ہوا ، بلکہ اسماء باقی ورثاء کی طرح تا حال اپنے حصۂ میراث کا مطالبہ کر سکتی ہے ، اور اس کے بھائی بکر کو بھی چاہیئے کہ اپنی بہن کو اس کا حصہ میراث دینے میں ٹال مٹول کرنے کے بجائے فی الفور مکمل شرعی حصہ دے کر مؤاخذہ اخروی سے سبکدوش ہو ، اور اگر بکر حصہ دینے پر رضامند نہیں ہو رہا ،تو ایسے صورت میں اسماء کو قانونی چارہ جوئی کا بھی حق حاصل ہے ۔
کما قال اللہ تعالی: یوصیکم اللہ فی أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین الآیۃ (سورۃ النساء ، آیت 4،)۔
کما فی مشکاۃ المصابیح: عن سعید بن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من أخذ شبرا فإنہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع أرضین ( ج: 1، ص: 254،)۔
و فیہ أیضاً: عن أنس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ رواہ ابن ماجۃ ج: 1، ص: 266،)۔
و فی جامع الفصولین: لو قال وارث ترکت حقی لا یبطل حقہ اذ الملک لا یبطل باالترک و الحق یبطل بہ حتی إن احد الغانمین لو قال قبل القسمۃ ترکت حقی بطل حقہ الخ (الفصل الثانی و العشرون فی مسائل الترکۃ ج: 2 ، ص: 40، ط: اسلامی کتب خانۃ)۔